Saturday 24 September 2011

Madame Hermet..........’’مادام ہر مے‘‘



’’مادام ہر مے‘‘ *۱
(Madame Hermet)

مجھے پاگلوں میں (ایک طرح کی) کشش محسوس ہوتی ہے ۔ یہ لوگ اوٹ پٹانگ خوابوں کی پر اسرار دنیا میں رہتے ہیں ۔ دیوانگی کے اس ناقابلِ رسائی بادل سے وہ جو کچھ روئے زمین پر دیکھتے ہیں ، وہ سب کچھ جسے وہ پسند کرتے ہیں اور وہ تمام افعال جو اُن سے سرزد ہوتے ہیں، اُن کی اس تصوراتی زندگی میں جاری ساری رہتے ہیں جہاں منطق اور اُن تمام کائناتی قوانین کا کوئی عمل دخل نہیں ہو تاکہ انسانی فکر جن کی تابع ہے۔
ناممکن کا لفظ اُن کی لغت میں موجود نہیں، خلافتِ واقعہ اُن کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اُن کے آنگن میں خواب و خیال کی پریاں مسلسل اُترتی رہتی ہیں اور مافوق الفطرت (واقعات) اُن کے ہاں ایک معمول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ قدیم منطق کا حصار، یہ پرانی معقولیت کی دیوار ، یہ پُرانے تصورات کا زینہ، یہ حُسنِ ظن (سب کچھ) اُن کے وہم و گماں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے اور (اُن کی باقیات) کسی غیر محدود فریبِ نظر میں گُم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک غیر معمولی جست میں ہوتا ہے اور اس کے سامنے کوئی روکاوٹ کھڑی نہیں ہوسکتی۔ اُن کے لیے سب کچھ ممکن ہے، ہر ایک امکان ظہور پذیر ہوسکتا ہے۔ وہ واقعات کو اپنی نہج پر لانے کے لیے مشکلات پر قابو پانے کے لیے اور راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کرتے۔ وہ اپنے اختیاری سراب کی ترنگ میں خود کو شہزادوں اور شاہزادیوں سے کم نہیں سمجھتے۔ وہ (بسا اوقات) اپنے آپ کو ( مطلق العنان) شہنشاہ بلکہ خدا تک سمجھنے لگتے ہیں۔ اُن کے خیال میں دنیا کی تمام تر امارت اُن کے قبضے میں ہے، زندگی کی تمام آسائشیں اُن کے لیے ہیں اور وہ ہر طرح کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ طاقت ور، خوبصورت ، جوان اور ہر دل عزیز رہیں گے۔ اس روئے زمین پر صرف وہی لوگ خوش ہیں جن کے لیے حقیقت کا کوئی وجود ہی نہی۔ مجھے اُن کی سیلانی روح کے اندر جھانکنا اچھا لگتا ہے جیسے کوئی کسی گڑھے کے اندر جھُک کر دیکھ رہا ہو جس کی تہہ میں ایک نامعلوم طوفان برپا ہو جو نہ جانے کہاں سے آتا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے ۔
ان دراڑوں کے اندر موجود کی جستجو سے کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ یہ بات کبھی کوئی نہ جان سکے گا کہ یہ پانی کدھر سے آتا ہے اور کس طرف چلا جاتا ہے۔ قصہ مختصر یہ پانی ویسا ہی ہے جو روزِ روشن میں ( ہماری آنکھوں کے سامنے) بہتا ہے، جسے دیکھنا ہمیں کسی بڑی حقیقت سے روشناس نہیں کرتا۔
(اسی طرح) پاگلوں کی روح کے اندر جھانکنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ اُن کے اوٹ پٹانگ خیالات مجموعی طور پر وہی ہیں جو ( دنیا کو ) پہلے سے معلوم ہیں ۔ اُن میں انوکھا پن صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ معقولیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے نہیں ہیں۔ اُن کی متلون مزاجی کا چشمہ ہمیں ایک حیرانی میں مبتلا کر دیتا ہے کیونکہ ہم اُسے (عموماً) اُبلتا ہوا نہیں دیکھتے ۔ بلا شبہ اس (چشمے) کے اندر طوفان پیدا کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا پتھر پھینکنا کافی ہے۔
لیکن پھر بھی پاگلوں نے ہمیشہ مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک عمومی، پُراسرار دیوانگی کے بلاوے پر ہمیشہ اُن کی طرف لوٹ گیا۔
ایک دن میں اُن کی پناہ گاہوں میں سے ایک (پاگل خانے) کا دورہ کر رہا تھا۔ جو ڈاکٹر صاحب میری رہنمائی کر رہے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا، ’’ٹھہریے میں آپ کو ایک دلچسپ کیس دکھاتا ہوں۔‘‘
انہوں نے ایک کوٹھری کا دروازہ کھولا تو ایک خوبصورت عورت جس کی عمر کوئی چالیس سال کے قریب ہوگی، ایک کُرسی پر بیٹھی تھی۔ وہ ایک دستی آئینے میں اپنے چہرے کو بڑے انہماک سے دیکھ رہی تھی۔
جونہی اُس نے ہمیں دیکھا وہ دفعتاً اٹھ کھڑی ہوئی اور لپک کر اُس تنگ کمرے کے ایک کونے میں رکھی کرسی سے اپنا نقاب اُٹھایا اور اپنے چہرے کو اچھی طرح لپیٹ کر ہماری طرف بڑھی اور سر کے اشارے سے ہمیں سلام کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا، ’’ صبح بخیر! کیا حال ہے تمہارا؟‘‘
اُ س نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، ’’ اوہ ۔۔۔ بُرا ۔۔۔ بہت بُراجناب ۔۔۔
(میرے چہرے پر) نشانات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے پُر تیقن انداز میں جواب دیا،
’’ نہیں تو ۔۔۔ بالکل نہیں، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم سے کوئی بھول ہوئی ہے ‘‘
وہ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے منمنائی ، ’’ نہیں جناب! مجھے پکا یقین ہے۔ میں نے آج صبح دس نئے مہاسے اپنے بائیں گال پر دیکھے ہیں اور پیشانی پر بھی تین نئے دانے نکل آئے ہیں ۔ ہائے یہ کتنے خوفناک ہیں میں کسی کو اپنا چہرہ دکھانے کی ہمت نہیں کر سکتی حتیٰ کہ اپنے بیٹے کو بھی نہیں۔ (میری بدقسمتی ہے کہ ) میں ہمیشہ کے لیے بدصورت ہو گئی ہوں۔‘‘
وہ اپنی کرسی پر گر گئی اور اُس نے سسکیاں لے کر رونا شروع کر دیا۔
ڈاکٹر صاحب ایک کُرسی سرکا کر اُس کے قریب بیٹھ گئے اور بڑی نرم اور مشفقانہ آواز میں کہنا شروع کیا۔ ’’ چلو مجھے دکھاؤ۔ میں تمہیں اطمینان دلاتا ہوں کہ یہ ایک معمولی سی بات ہے۔ ذرا سی ’کاٹری‘ *۲ سے میں انہیں ٹھیک کر دوں گا۔‘‘
اُس نے بغیر کوئی لفظ کہے سر کے اشارے سے ’’ناں‘‘ کہا۔ (ڈاکٹر صاحب) اُس کے نقاب کو اُلٹنا چاہتے تھے لیکن اُس نے اُن کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اتنی سختی سے پکڑ لیا کہ اُس کی انگلیوں کے نشانات ڈاکٹر صاحب کے بازو (کے گوشت) پر پڑ گئے۔
وہ دوبارہ اُس کو تسلّی و تشفی دینے لگے۔
’’دیکھو! تمہیں پتہ ہے کہ یہ بدنما داغ دھبے ہمیشہ میرے علاج سے غائب ہو جاتے ہیں اور ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ اگر تم مجھے ( اپنا چہرہ) نہیں دکھاؤ گی تو میں کیسے ان کا علاج کروں گا؟‘‘
اُس نے زیرِ لب کہا ، ’’ مجھے آپ پر بھروسہ ہے لیکن آپ کے ساتھ یہ صاحب کون ہیں؟‘‘
’’ یہ بھی ڈاکٹر ہیں اور مجھ سے بہتر تمہارا علاج کریں گے۔‘‘
پھر اُس نے اپنا چہرہ کھولے جانے پر مزاحمت نہیں کی لیکن ایک ڈر خوف ، ( ایک طرح کی ) جذباتیت اور یوں دیکھے جانے کی شرمندگی سے اُس کی گردن تک لال ہو گئی جو اُس کے کالر میں دھنسی جا رہی تھی۔ اُس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں۔ وہ کبھی اپنا چہرہ ادھر کر لیتی کبھی ادھر کر لیتی تاکہ وہ ہماری نظروں سے بچ سکے۔ وہ بُڑ بڑائی ،
’’ مجھے خود کو یوں دیکھے جانا کتنا خوفناک لگتا ہے۔ یہ کتنا وحشت ناک ہے۔۔۔ ہے نا وحشت ناک ؟‘‘
میں اُسے حیران ہو کر بغور دیکھ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی داغ دھبہ نہیں تھا کسی زخم کا نشان نہیں تھا کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ میری طرف مڑی ۔ اُس کی نگاہیں اب بھی نیچی تھیں ۔اُس نے مجھ سے کہا، ’’جناب! اپنے بیٹے کی تیمار داری کرتے ہوئے یہ خطر ناک بیماری مجھے لگی ہے۔ میں نے اُسے تو بچا لیا لیکن میرا چہرہ بگڑ گیا میں نے اپنی خوبصورتی اپنے بیٹے کو دے دی ۔۔۔ میرا بیٹا ۔۔۔ بے چارہ ۔۔۔ لیکن مجھے تو اپنا فرض نباہنا تھا ۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ میری اس حالتِ زار کو صرف خُدا جانتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے واٹر کلر والا ایک باریک برش نکالا اور کہا، ’’ مجھے (اپنا کام ) کرنے دو۔ دیکھنا میں ابھی سب ٹھیک کر دوں گا۔‘‘
اُس نے اپنا دایاں گال سامنے کیا اور ڈاکٹر صاحب اِس آہستگی سے برش پھیرنے لگے کہ جیسے وہ رنگوں کے ہلکے ہلکے سٹروک لگا رہے ہوں۔ پھر اُنہوں نے یہی عمل بائیں گال ، ٹھوڑی اور پیشانی پر کیا اور پھر چہک کر کہا۔
’’ دیکھو اب(کسی داغ دھبے کا )کوئی نشان تک نہیں ہے۔‘‘
پھر اُس نے آئینہ پکڑا اور بہت دیر تک (اپنے چہرے کو) ایک گہری توجہ سے دیکھتی رہی، اتنے شدید انہماک سے کہ جس میں اُس کی روح کی تمام تر توانائی صرف ہو رہی تھی تاکہ وہ (وہاں) کچھ دریافت کرسکے۔ پھر اُس نے ایک گہری سانس لی۔
’’ نہیں اب کچھ زیادہ بدنما نہیں دکھائی دے رہا ۔ میں آپ کی بے حد مشکور ہوں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے، اُنہوں نے اُسے سلام کیا اور مجھے باہر نکلنے کا اشارہ کیا اور پھر خود بھی باہر نکل آئے اور جب پیچھے سے دروازہ بند ہوا تو کہنے لگے کہ اس بدنصیب کی داستان کچھ یوں ہے،
’’ اِس کا نام ’مادام ہر مے‘ ہے۔ یہ نہایت خوبصورت اور ہر دل عزیز عورت تھی اور خوش و خرم زندگی بسر کر رہی تھی۔ یہ اُن عورتوں میں سے تھی کہ جن کے پاس سوائے حُسن کے اور کچھ نہیں ہوتا اور اسی خوبصورتی کے ذریعے اپنی زندگی کو سپھل کرنے کے جتن کرتی ہیں۔ وہ اپنی تازگی ، چہرے کی دیکھ بھال ، اپنے ہاتھوں اپنے دانتوں اور اپنے جسم کے وہ تمام اعضاء جو نظر آتے ہیں ، اُن کے بارے میں مستقل طور پر فکر مند رہتی تھی۔ اُس کا تمام وقت اور توجہ اپنے آپ کو خوبصورت اور جاذبِ نظر بنائے رکھنے میں صرف ہوتا تھا۔
پھر وہ بیوہ ہو گئی۔ اُس کا ایک بیٹا تھا ۔ اُس بچے کی پرورش اُسی طرح ہوئی جس طرح و ہ تمام بچے پرورش پاتے ہیں کہ جن کی مائیں مجلسی زندگی کی عادی ہوں اور سب لوگوں کی آنکھ کا تارہ ہوں۔ بہر حال وہ اسے پیار کرتی تھی۔
وہ لڑکا بڑا ہوتا گیا اور اس (کی ماں) کا حُسن ڈھلتا گیا۔ وہ ایک مہلک خطرے کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ ہر صبح گھنٹوں تک اپنی صاف شفاف اور ملائم جلد کو دیکھتی رہتی۔ اُس کی آنکھوں کے نیچے کی جلد پر غیر محسوس جھریاں نمایاں ہو رہی تھیں۔ گو وہ ابھی بہت واضح نہ تھیں لیکن اُنہوں نے روز بروز گہرے سے گہرا ہوتے جانا تھا۔ وہ اپنے ماتھے پر نمایاں ہوتی ہوئی لمبی شکنوں کو غور سے دیکھتی رہتی جو آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر پھیلتی جا رہی تھیں۔ یہ شکنیں باریک سانپوں کی طرح لہرا رہی تھیں جنہیں کوئی بھی قابو میں نہیں لا سکتا تھا۔ آئینہ دیکھتے ہوئے وہ ایک شدید کرب کا شکار ہو جاتی تھی۔ چاندی کے فریم والادستی آئینہ اُسے مسلسل کچوکے دے رہا تھا۔ وہ اپنے دستی آئینے کو میز پر رکھنے کا فیصلہ نہ کر پاتی تھی اور اگر کبھی جھلا کر اُسے ایک طرف رکھ دیتی تو فوراً ہی اُسے دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے لیتی اور قریب سے بلکہ نہایت قریب سے بڑھاپے کی مستقل اور کراہت انگیز غارت گری کو دیکھتی رہتی جو (دن بدن) نزدیک آتی جا رہی تھی۔
وہ جب ڈرائنگ روم میں اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کر رہی ہوتی تھی تو دسیوں بلکہ بیسیوں مرتبہ بغیر کسی وجہ کے اٹھ کر اپنی خواب گاہ میں چلی جاتی اور کنڈیاں لگا کر اپنے ڈھلتے ہوئے شباب *۳ اور گوشت پوست میں جاری تخریبی عمل کو دیکھتی رہتی جو دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ اس بُرائی ، کی سست پیش قدمی کو مایوسی سے نظریں جمائے دیکھتی رہتی جسے عام لوگوں کی نظریں ابھی دیکھ نہ پائی تھیں لیکن اُسے تو اس بات کا بخوبی علم تھا، وہ جانتی تھی کہ گزرتی ہوئی عمر کیسے شدت سے حملہ آور تھی اور اُس نے کہاں کہاں گہری خراشیں ڈالی تھیں۔ چاندی کے فریم والا گول دستی آیئنہ ، جس کے فریم پر نقاشی کا کام تھا، اُسے (اِن) دہشت ناک باتوں کی خبر دیتا تھا ، کیونکہ آئینہ باتیں کرتا تھا، لگتا تھا کہ وہ اُس پر ہنس رہا ہے، اُس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ وہ سب جو وقوع پذیر ہونیوالا تھا اُسے برملا بتاتا تھا۔ وہ اُس کے جسم کی تمام بے چارگیاں بے رحمی سے عیاں کرتاتھا۔ اُس کے ذہن میں اُبھرنے والی موت کی بے رحم خواہش حتیٰ کے موت کے بارے میں اُسے آگاہ کرتا تھا۔ موت جو شاید اُسے تمام دکھوں سے نجات دے سکتی تھی۔
وہ اپنے زانوؤں پر سر رکھے دن رات بُری طرح روتی رہتی۔ وہ زمین پر پیشانی رکھے دعائیں مانگتی رہتی۔ اُس ذات سے التجائیں کرتی رہتی جو لوگوں کوجوانی صرف اس لیے دیتا ہے کہ اُس کے بدلے اُنہیں ہمیشہ رہنے والا بڑھاپا دے سکے ۔۔۔ وہ ذات جو خوبصورتی اورحُسن محض اس لیے مستعار دیتی ہے کہ فوراً ہی اسے چھین سکے ۔ اُس نے کتنی ہی دُعائیں مانگیں کہ مالک ! یہ تازگی، یہ شباب، یہ کشش اُس کی زندگی کے آخری دن تک باقی رہ جائے۔ (مادام) خدا سے وہ سب کچھ مانگ رہی تھی کہ جو اُس نے ہمیشہ کے لیے کسی کو نہیں دیا تھا ۔ پھر جب اُس کو یقین آجاتا کہ وہ اُس بے لچک ، نامعلوم ( ہستی) کے سامنے بے کار دُعائیں۔ کر رہی ہے جو ایک ایک سال کو آگے دھکیلے جا رہا ہے، تو وہ اپنی بانہوں کو بھینچتے ہوئے کمرے کے قالین پر گر جاتی اور گاہے کسی فرنیچر سے ٹکراکراپنا ماتھا زخمی کر لیتی اور انتہائی مایوسی کے عالم میں چیخیں اُس کے گلے میں گھٹ کر رہ جاتیں۔
بلا شبہ وہ ( وقت کے اِس) جبر و تشدد کی عادی ہو چکی تھی جب یہ واقعہ پیش آیا۔
ایک دن جب اُس کی عمر چھتیس سال تھی اور اُس کا بیٹا پندرہ سال کا تھا ، اُس کا بیٹا بیمار پڑ گیا۔
وہ بستر سے لگ گیا لیکن ابھی تشخیص نہیں ہو پا رہی تھی کہ اُس کی بیماری کی نوعیت کیا ہے۔
ایک پادری جو اُس (لڑکے ) کا اُستاد تھا ، وہ ہر وقت اُس کے پاس رہتا اور اُس سے جُدا نہ ہوتا تھا جبکہ مادام ہر مے صبح شام اُس کی خبر لینے آتی۔
وہ ہر صبح خوشبوؤں سے مہکتے ہوئے لباسِ شب خوابی میں ملبوس ، مسکراتے ہوئے دروازے میں کھڑے ہو کر کہتی ، ’’ جارج! تم ٹھیک تو ہونا؟‘‘
بخار میں پھنکتا ہوا ، سوجے ہوئے جسم والا سُرخ ، موٹا تازہ لڑکا کہتا ’’ ہاں پیاری ماں ۔۔۔ کچھ بہتر ہوں۔‘‘
وہ کمرے میں چند ثانیے ٹھہرتی اور دواؤں کی بوتلوں کو دیکھتے ہوئے ناک سکیڑتی اور بُرا سا مُنہ بناتی اور پھر اچانک کہہ اُٹھتی ، ’’ ارے مجھے تو ایک نہایت ضروری کام یاد آگیا ہے۔ ‘‘ وہ وہاں سے بھاگ جاتی اور اپنے پیچھے اپنے لباس میں بسی مہک چھوڑ جاتی۔
اُس شام اُس نے کشادہ گریبان والا *۴ لباس پہنا ہوا تھا اور بہت جلدی میں تھی۔ اُسے ہمیشہ کہیں پہنچنے میں دیر ہو رہی ہوتی تھی۔ اُس کے پاس صرف اتنا ہی پوچھنے کا وقت تھا، ’’ اچھا! تو ڈاکٹر نے کیا کہا؟‘‘
پادری نے جواب دیا۔ ’’ وہ ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا۔‘‘
اسی طرح ایک شام پادری نے جواب دیا، ’’ مادام! آپ کے بیٹے کو چیچک نکل آئی ہے۔ ‘‘ *۵
مادام نے ایک زوردار چیخ ماری اور ڈر کے مارے بھاگ گئی۔
اگلے دن جب اُس کی ملازمہ اپنی مالکن کے کمرے میں گئی تو اُسے جلی ہوئی چینی کی تیز بُو محسوس ہوئی۔ اُس نے دیکھا کہ اُس کی مالکن کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور چہرہ بے خوابی سے پیلا ہو رہا ہے اور وہ بستر میں پڑی شدید کرب کی وجہ سے سسکیاں لے رہی ہے۔
جب کھڑکیوں کے بیرونی شٹر کھلے تو مادام ہر مے نے پوچھا ،
’’جارج کیسا ہے؟‘‘
’’آہ ۔۔۔ آج تو وہ بالکل اچھا نہیں ہے مادام ۔‘‘
وہ دوپہر تک بستر سے نہ اٹھی۔ اُس نے چائے کی ایک پیالی کے ساتھ ( صرف ) دو انڈے کھائے جیسے وہ بذاتِ خود بیمار ہو، پھر وہ گھر سے نکلی اور ایک میڈیکل سٹور میں چلی گئی جہاں سے اُس نے چیچک کی روک تھام اور حفاظتی تدابیر کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
وہ شام کے کھانے پر ہی (گھر) لوٹی۔ اُس کے دونوں ہاتھوں میں (مختلف اقسام کی) بوتلیں تھیں۔ اُس نے فوراً ہی اپنے آپ کو خواب گاہ میں بند کر لیا اور اپنے اوپر جراثیم کش ادویات کا وافر چھڑکاؤ کیا۔
پادری صاحب کھانے کے کمرے میں اُس کا انتظار کر رہے تھے۔ جونہی اُس کی نظر اُن پر پڑی۔ اُس نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’ سب اچھا تو ہے ناں؟ ‘‘
’’ آہ ۔۔۔ کوئی بہتری نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی اس بارے میں شدید فکر مند ہیں‘‘
اُس نے رونا شروع کر دیا۔ شدتِ گریہ سے وہ اِس قدر بے حال ہو گئی کہ اُس سے کچھ کھایا پیا نہیں گیا۔
اگلے دن، دن چڑھے اُس نے جارج کی خیر خیریت دریافت کی۔ حسبِ سابق اس میں بہتری کے کوئی آثار نہ تھے۔ اُس نے سارا دن اپنے کمرے میں بند ہو کر گزارا جہاں (مختلف)فلیتے، اگر بتیاں سلگ رہی تھیں اور اُن کی تیز بُو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔
اُس کی ملازمہ نے باہر (آکر) بتایا کہ وہ رات گئے تک دکھ اور تکلیف سے کراہتی رہی ہے۔
اسی طرح پورا ایک ہفتہ گزر گیا۔ عین دوپہر میں گھنٹہ دو گھنٹہ کی ہوا خوری کے لیے نکلنے کے علاوہ اُس نے کچھ بھی نہیں کیا۔
اب وہ گھڑی گھڑی (اپنے بیٹے کی) خیریت دریافت کرتی ۔ اُس کی دن بدن بگڑتی ہوئی صحت پر آہ و زاری کرتی رہتی۔ گیارویں روز صبح(سویرے) پادری صاحب نے اپنی آمد کی خبر کی اور اُس کے کمرے میں داخل ہو گئے۔ اُن کا چہرہ گھمبیر اور زرد ہو رہا تھا۔ اُنہوں نے اُس کی طرف سے کرسی پر بیٹھنے کی پیشکش قبول کیے بغیر کہا۔
’’ مادام! آپ کا بیٹا بہت بیمار ہے اور وہ آپ کو دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ گھٹنوں کے بل گر گئی اور چلّانے لگی، ’’ آہ ۔۔۔ میرے خدا، میرے خدا۔۔۔ مجھ میں ہمت نہیں( کہ اُسے دیکھ سکوں)، میرے خُدا ۔۔۔ میرے خدا مجھے بچالے ۔‘‘
پادری صاحب دوبارہ گویا ہوئے۔
’’ ڈاکٹر صاحب کو (اُس کے زندہ بچنے کی ) کوئی اُمید نہیں رہی اور جارج آپ کا انتظار کر رہا ہے۔‘‘
پھر وہ کمرے سے نکل گئے۔
دو گھنٹے بعد جب وہ نو عمر لڑکا موت کو اپنے قریب محسوس کرنے لگا تو اُس نے اپنی ماں کو یاد کیا۔ پادری صاحب دوبارہ مادام ہرمے کے کمرے میں گئے تو وہ اُسی طرح زانوؤں پر سر رکھے زاروقطار روئے جا رہی تھی اور مسلسل کہہ رہی تھی۔
’’ میں نہیں (جاسکتی) ، میں اُسے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘
پادری صاحب نے اُسے قائل کرنے کی کوشش کی ، اُسے سمجھایا بجھایا اور اُسے زبردستی( بھی ) اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس پر ایک شدید اعصابی دورہ پڑ گیا جو بہت دیر تک جاری رہا اور وہ چیخنے چلّانے لگی۔
جب شام کو ڈاکٹر صاحب آئے تو اُنہیں (مادام کی ) بزدلی کے بارے میں بتایا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے فیصلہ دیا کہ وہ خود اُسے زبردستی لے آئیں گے۔
لیکن جب ہر طرح کے دلائل بے اثر گئے تو ڈاکٹر صاحب نے (مادام ہرمے کو) کمر سے پکڑ کر اُٹھا لیا تاکہ اُسے اپنے بیٹے کے پاس لے جاسکیں اُس نے دروازے کو اتنی سختی سے پکڑ لیا کہ اُس کو وہاں سے چھڑانا ممکن ہوگیا۔
پھر جب ڈاکٹر صاحب نے اُسے چھوڑ دیا تو وہ اُن کے پاؤں میں گر گئی اور اُن سے معافی طلب کی۔ وہ اپنے آپ کو اُس قابلِ رحم حالت پہ بُرا بھلا کہہ رہی تھی۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔ ’’ وہ نہیں مر سکتا ۔۔۔ڈاکٹر صاحب آپ کہیں کہ وہ نہیں مر سکتا۔ میں آپ کی منت کرتی ہوں۔ آپ اُسے کہیں کہ میں اُسے پیار کرتی ہوں، اُسے چاہتی ہوں۔‘‘
نوجوان کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اپنی موت کو قریب دیکھ کر اُس نے التجاء کی تاکہ وہ اپنی ماں کو الوداع کہہ سکے۔
قریب المرگ لوگوں کو ایک ( خاص طرح کی) پیش بینی کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے سو اُسے سارے معاملے کی سمجھ آ گئی، اُسے اندازہ ہو گیا چنانچہ اُس نے کہا،
’’ اگر (میری ماں) کمرے میں داخل نہیں ہوسکتی تو اُس سے درخواست کریں کہ وہ بالکونی تک ہی آجائے تاکہ میں کم از کم اُسے کھڑکی سے ہی دیکھ سکوں اور اُسے نگاہوں سے ہی خُدا حافظ کہہ سکوں ، اگرچہ میں اُسے گلے نہیں مل سکتا۔‘‘
ڈاکٹر اورپادری صاحب اُس خاتون کی طرف دوبارہ آئے اور کہا، ’’ آپ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا، اُنہوں نے قطعی انداز میں کہا ، جبکہ آپ کے اور اُس کے درمیان شیشہ حائل ہوگا۔‘‘
اُس نے ( بالآخر) اپنی آمادگی ظاہر کر دی ۔ اُس نے اپنے سر کو ڈھانپا، اپنے ساتھ نمک کی ایک شیشی رکھ لی اور بالکونی پر تین قدم رکھے۔ پھر اچانک اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا اور کراہتے ہوئے (بولی) ’’ نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ میں اُسے دیکھنے کی ہمت نہیں کر سکتی ۔۔۔ مجھے شرم آتی ہے ۔۔۔مجھے بہت ڈرلگتا ہے ۔۔۔نہیں ۔۔۔ مجھ سے یہ ممکن نہ ہوگا ‘‘
وہ اُسے کھینچ کھانچ کر (کھڑکی کے پاس) لے جانا چاہتے تھے لیکن اُس نے بالکونی کی سلاخوں کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور اتنی شدت سے چیخے جا رہی تھی کہ گلی سے گزرتے مسافر، سر اُوپر اٹھائے (اُسے) دیکھ رہے تھے۔
مرنے والا اپنی آنکھیں کھڑکی کی طرف لگائے ہوتے منتظر تھا کہ وہ آخری مرتبہ اپنی محبوب ( ماں) کا مہربان سراپا، اپنی مقدس ماں کے چہرے کو آخری مرتبہ دیکھ سکے۔
وہ دیر تک انتظار کرتا رہا ، ( حتیٰ کہ ) رات ہو گئی۔ پھر اُس نے دیوار کی طرف منہ کر لیا اور کو ئی لفظ نہ بولا۔
جب دن چڑھا تو و ہ مر گیا۔
اگلے دن ( اُس کی ماں ) پاگل ہو گئی۔

ختم شد



حواشی و تعلیقات
* ۱( موپاساں کا یہ افسانہ مورخہ 18جنوری 1887ء کو روزنامہ ’’ جِل بلا‘‘ میں پہلی مرتبہ منظرِ عام پر آیا۔ بعد ازاں اُس کے افسانوی مجموعے ’’لامیں گوش‘‘ ( La main gauche بایاں ہاتھ) میں چھپا۔
Hermetکا اصل تلفظ ’’ ایغ مے‘‘ بنتا ہے لیکن اردو صوتیات کی رعایت سے ’’ ہر مے ‘‘ کا تلفظ قائم کیا گیا ہے۔ تلفظ کے بارے کلیے کے طور پر یہ یاد رکھیں کہ فرانسیسی زبان میں جہاں کہیں "R" آئے اس کو بلا تکلف ’’ آغ‘‘ یعنی ’’ غ‘‘ پڑھیں یعنی یہ ’’ر‘‘ کے بجائے ’’غ‘‘ کی آواز دے گا۔ اسی طرح جہاں کہیں ’’ D‘‘ آئے اسے ہمیشہ ’’د‘‘ پڑھیں اور کبھی ’’ڈ‘‘ نہ پڑھیں مثلاً اگر لکھا ہو Dome تو اسے ڈوم نہیں پڑھنا بلکہ دوم پڑھنا ہے۔ اسی طرح ’’T‘‘ کا تلفظ ہمیشہ ’’ت‘‘ سے ہوگا ’’ٹ‘‘ سے کبھی نہیں ہوگا مثلاً لفظ Type بمعنی آدمی کو ’’ تیپ‘‘ پڑھا جائے گا۔
* ۲ (cauterization) مائیکرو سرجری کی ایک قسم جس میں ، تیزابیت یا شدید گرم تار سے کیل مہاسے وغیرہ کو جلا کر ختم کر دیا جاتا ہے)
*۳ (یہاں موپاساں نے Chair mure کی ترکیب استعمال کی ہ جس کا انگریزی مترادف Ripened flesh جس کا لفظی ترجمہ پکا ہوا گوشت بنتا ہے پکا ہو ا گوشت بمعنی Cooked fleshنہیں ہے بلکہ جیسے کچا پھل اور پکا پھل کی طرح ہے۔ یعنی وہ گوشت پوست جس پر جوانی اپنی بہار دکھا چُکی ہو)
*۴ (یہاں موپاساں نے ایک مخصوص پارٹی ڈریس La robe decolletee (جس کا لفظی ترجمہ بغیر گریبان کے لباس ہے) کا ذکر کیا ہے جو آج بھی فرانسیسی خواتین کے فیشن میں داخل ہے ۔ پر لباس کافی Low neckہوتا ہے اور شانے کھلے رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات صرف سینے کے نچلے حصے کو بمشکل ڈھانپتا ہے بازو اورشانے اور چھاتی کا بیشتر حصہ ننگا رہتا ہے)
* ۵( 1887ء میں پیرس میں چیچک Smallpox کی وبا پھیلی تھی۔ اُس عہد میں یہ بیماری بڑی خوفناک مانی جاتی تھی اور چہرے پر مستقل سوراخ نما دھبے پڑ جاتے تھے۔ اُن دنوں اس کا کوئی علاج نہ تھا ویکسین یا اینٹی بائیو ٹیک ادویات کا علاج ابھی دریافت نہیں ہواتھا)

No comments:

Post a Comment