Saturday 24 September 2011

Les bijoux ....زیورات *۱



زیورات *۱
(Les bijoux)

موسیو لاں تیں اپنے محکمے کے نائب سربراہ کے گھر ایک شام (کی ضیافت میں) جب اُس نوجوان لڑکی سے مِلا تو وہ اُس کی محبت کا اسیر ہو گیا۔ *۲ وہ ایک صوبائی ٹیکس کلکٹر کی بیٹی تھی جو کئی سال پہلے فوت ہو چکا تھا۔ اب وہ اپنی ماں کے ساتھ پیرس منتقل ہو گئی تھی۔ اُس (کی ماں نے) اپنے علاقے کے معزز خاندانوں میں اس امید پر آنا جانا شروع کیا کہ اپنی جوان بیٹی کی (کہیں) شادی کر سکے ۔
وہ دونوں غریب، عزت دار ، خوش اخلاق اور شائستہ اطوار تھیں۔ نوجوان لڑکی کسی دیانت دار عورت کی ایک مکمل تصویر تھی جسے کوئی بھی عقلمند جوان مرد اپنی شریکِ حیات بنانے کا خواب دیکھ سکتا تھا۔ اُس کے پاکیزہ حُسن میں فرشتوں جیسی نفاست اور کشش تھی اور ایک خفیف سی مسکراہٹ ہر وقت اُس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی جو اُس کے (شفاف) دل کی آئینہ دار تھی۔
ہر کوئی اُس کی خوبیوں کے گُن گاتا تھا۔ وہ لوگ جو اُسے جانتے تھے۔ ہر جگہ اور مسلسل یہی کہتے کہ اُسے پانے والا ( انتہائی) خوش نصیب ہوگا ، (بلکہ) اُس سے بہتر (شریکِ حیات) مل ہی نہیں سکتی۔
موسیو لاتیں اُن دنوں وزارتِ داخلہ میں ساڑھے تین ہزار فرانک سالانہ پر بطور ہیڈ کلرک ملازمت کر رہا تھا۔ اُس نے (اُن کے ہاں) رشتہ بھیجا اور وہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
وہ اُس کے ساتھ انتہائی خوش تھا۔ اُس نے اپنے گھر کو ایسی کفایت شعاری سے چلایا کہ یوں لگتا تھا کہ وہ ایک پُر تعیش زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہرطرح کی لگاوٹ ، پیار محبت اور خوش فعلیاں کرتی تھی۔ اُس کی شخصیت میں جاذبیت اس قدر تھی کہ وہ شادی کے چھ سال بعد بھی اُسے روزِ اوّل سے زیادہ چاہتا تھا۔
سوائے دو باتوں کے اُسے بیوی سے کوئی شکایت نہ تھی اول یہ کہ وہ تھیٹر کی دلدادہ تھی اور دوسرے یہ کہ نقلی زیورات اُس کی کمزوری تھے۔
کچھ درمیانے درجے کے افسروں کی بیویاں اُس کی سہیلیاں بن گئیں وہ اُس کے لئے مقبول عام ڈراموں کی نشستیں مختص کروا دیا کرتی تھیں اور حتیٰ کہ ڈراموں کے افتتاحیہ کھیل * 2- پر بھی اُس کے لیے ٹکٹ لے آتیں تھیں اور وہ اپنے خاوند (موسیولاں تیں کو بھی) اصرار کر کے اِن تفریحات پر لے جاتی جو اُسے دن بھر کی محنت کے بعد بُری طرح تھکا دیتیں ۔ سو اُس کے شوہر نے اُس کی منت سماجت کی کہ وہ اپنی کسی جاننے والی خاتون کے ساتھ تھیٹر دیکھنے چلی جایا کرے اور وہی اُسے واپس بھی لے آیا کرے۔ وہ بہت دیر تک اس تجویز کی مخالفت کرتی رہی کیونکہ اُسے ( شوہر کے بغیر تھیٹر جانا) مناسب نہیں لگتا تھا۔ بالآخر اُسے چارو ناچار یہ تجویز قبول کرنا پڑی اور اُس کے خاوند نے (اس تجویز کو قبول کیے جانے پر) نہایت شکر گزاری کا مظاہرہ کیا۔
تھیٹر کے (بڑھتے ہوئے )میلان نے اُس کے اندر اپنے آپ کو بنانے سنوارنے کی خواہش کو جنم دیا ۔ اُس کا لباس تو بالکل سادہ رہا لیکن لباس کی تراش خراش سے نفاست اور ذوق جھلکتا تھا۔ اُس کی من موہنی شخصیت اور انکسار آمیز تبسم ناقابلِ مزاحمت تھا اور انہی خصوصیات نے ، لباس کی سادگی کے باوجود اُس کے اندر ایک دلکشی پیدا کر دی تھی۔ اُس نے اپنے کانوں میں ’’غیں‘‘ *۳ کے بنے بڑے بڑے ٹاپس پہننے کی عادت سی بنا لی تھی جو بالکل ہیروں کی طرح دکھائی دیتے تھے ۔ ( اسی طرح وہ) نقلی موتیوں کے ہار اور رولڈ گولڈ کے کنگن پہنتی تھی اور جوڑے میں بروچ لگاتی تھی جن پر نفیس پتھروں کے نگینے جڑے ہوئے تھے۔
اُس کا خاوند اِس چمک دمک کیلئے اسقدر بڑھی ہوئی شیفتگی پر جزبز ہوتا تھا اور کہ اکثر یہ کہتا کہ ، ’’میری جان! جب اصلی موتی خریدنے کی توفیق نہ ہو تو (انسان کو ) اپنی آرائش صرف سادگی اور متانت سے کرنی چاہئے ( کیونکہ سادگی اور وقار ) دُنیا کے سب سے زیادہ انمول موتی ہیں۔ ‘‘
لیکن وہ نرمی سے مسکرا دیتی اور کہتی،’’ تم کیا چاہتے ہو؟ مجھے علم ہے کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو (یہ زیورات) مجھے اچھے لگتے ہیں سو میں پہنوں گی۔‘‘
وہ اپنی انگلیوں کے درمیان موتیوں کے ہاروں کو گھماتی رہتی اور کرسٹل کی تراشیدہ سطحوں کو دیکھتے ہوئے بار بار کہتی ، ’’ دیکھو تو ! کتنے اچھے لگ رہے ہیں ۔ قسم سے بالکل اصلی لگتے ہیں۔‘‘
وہ ہنستے ہوئے قطعی طور پرکہتا، ’’ تمہارا ذوق تو خانہ بدوشوں والا ہے۔‘‘
اکثر شام کو جب وہ آتشدان کے پاس سرجوڑے بیٹھے ہوتے تو وہ ایک مراکشی چمڑے کا ڈبالا کر (سامنے دھری) چائے کی تپائی پر رکھ دیتی جس میں موسیولاں تیں کے الفاظ کے مطابق محض نمائشی الّم غلّم *۴ بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنے جعلی زیورات کا ایک جذبوں بھری توجہ سے معائنہ شروع کر دیتی جیسے اس عمل سے اُسے کوئی گہری اور پوشیدہ مسرت مل رہی ہو۔ وہ کبھی اصرار کر کے کوئی ہار اپنے خاوند کی گردن میں ڈال دیتی پھر دل کی گہرائیوں سے قہقہے لگاتی اور (تقریباً )چیختے ہوئے کہتی ، ’’ تم کتنے احمق ہو !‘‘ پھر وہ اپنے آپ کو اُس کی بانہوں میں گرادیتی اور اُسے دیوانہ وار چومنے لگتی۔
سردیوں کی ایک رات حسبِ معمول جب وہ ’اوپیرا‘ *۵ سے لوٹی تو بُری طرح ٹھٹھر رہی تھی ۔ اگلے دن اُسے کھانسی لگ گئی اور آٹھ روز بعد وہ ڈبل نمونیے سے مر گئی۔ *۶
یوں لگتا تھا کہ لاں تیں بھی اُس کے ساتھ ہی مر جائے گا۔ اُس کی مایوسی اور نااُمیدی اتنی بھیانک ہو گئی کہ ایک ماہ کے اندر اُس کے بال سفید ہو گئے۔ وہ صبح سے شام تک مسلسل روتا رہتا ۔ اُس روح ناقابلِ برداشت دُکھ سے پارہ پارہ ہو رہی تھی۔ مرحومہ کی مسکراہٹ ، آواز اور تمام خوبیوں کی یاد اُسے ستاتی رہتی۔
وقت گزرنے پر بھی اُس کا دُکھ کم نہ ہوا ۔ ڈیوٹی کے اوقات میں اکثر جب اُس کے دفتری ساتھی اُس کے پاس معمول کی بات چیت کے لئے آتے تو وہ دیکھتے کہ اُس کے گال سُتے ہوئے ہیں، ناک سُکیڑی ہوئی ہے اور آنکھیں چھلکنے کو ہیں۔ ایک شدید کرب اُس کے چہرے سے عیاں ہوتا اور وہ سسکیاں لے کر رونے لگتا۔
اُس نے اپنی شریکِ حیات کے کمرے کی تمام اشیاء کو جوں کا توں رکھا۔ وہ اپنے آپ کو روزانہ اُس کمرے میں بند کر لیتا اور اُس کے بارے میں سوچتا رہتا۔ تمام فرنیچر، سارے ملبوسات اپنی اپنی جگہ پر اُسی طرح پڑے ہوئے تھے جیسے کہ اُس کی زندگی میں تھے۔
اُس کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ اُس کی تنخواہ بیوی کے ہاتھوں میں گھر کے تمام اخراجات کیلئے کافی ہوتی تھی لیکن اب اُس اکیلے کے لئے ناکافی ثابت ہو رہی تھی۔ وہ حیران ہو کر اپنے آپ سے سوال کرتا کہ وہ اس قلیل آمدنی میں سے پینے کے لیے بہترین شرابیں اور کھانے کے لیے لذیذ غذائیں خریدنے کا کس طرح بندوبست کرتی ہوگی ؟
اُس پر کچھ قرضہ چڑھ گیا اور وہ روپے کے پیچھے مفلوک الحال لوگوں کی طرح بھاگنے لگا ۔ مہینے کے آخری ہفتے کی ایک صبح ، جب اُس کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی تو اُس نے سوچا کہ کیوں نہ گھر کی کوئی چیز بیچ دی جائے۔ دفعتاً اُسے خیال آیا کہ وہ اپنی بیوی کے جعلی زیورات سے چھٹکارہ حاصل کر لے کیونکہ اُس کے دل کی گہرائیوں میں کہیں ان نقلی اشیاء کے خلاف ایک طرح کی عداوت تھی جو اُسے بسا اوقات تنگ کرتی رہتی تھی۔ اُنہیں روز دیکھنا بھی اپنی محبوبہ کی یاد کو خراب کرنے کے برابر تھا۔
وہ دیر تک اُن زرق برق اشیاء کے ڈھیر کو دیکھتا رہتا جو اُس کی بیوی چھوڑ گئی تھی۔اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اُس نے بے تحاشا خریداری کی تھی اور تقریباً ہر شام کوئی نہ کوئی نئی چیز گھر لے آیا کرتی تھی۔ پھر اُس نے خود یہ فیصلہ کیا کہ یہ بڑا ہار جسے وہ سب سے زیادہ ترجیح دیتی تھی بیچ ڈالے ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ ہار ایک بہتر قیمت پر یعنی چھ سے آٹھ فرانک تک بِک جائے گا کیونکہ اُس نقلی مال پر بھی نہایت نفیس جڑاؤ کام تھا۔
اُس نے اس ہار کو اپنی جیب میں ڈالا اور مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے اپنی وزارت (کے دفتر) کی طرف روزانہ ہو گیا۔ وہ سار ے راستے کسی جوہری کی دوکان تلاش کرتا رہا جس پر وہ اعتماد کرسکے ۔
اُسے (اپنے مطلب کی) ایک دوکان نظر آگئی اور وہ اُس کے اندر داخل ہو گیا۔ وہ اپنی مفلوک الحالی کے عیاں ہونے پر شرمندہ تھا اور اس بات پر بھی کہ وہ اتنی معمولی سی چیز بیچنے کے لیے لایا ہے اُس نے دوکاندار سے کہا، ’’ جناب! آپ کے نزدیک اس دانے کی اندازاً کتنی قیمت ہوگی؟‘‘
اُس شخص نے ہار کو الٹ پلٹ کر جانچ پڑتال کی اور اُسے مشکوک نظر سے دیکھا۔ پھر اُس نے ایک محدّب عدسہ اٹھایا اور اپنے ملازم کو آواز دی اور اُس سے مدھم آواز میں کچھ کھُسر پھُسر کی اور پھر اُس نے ہار کو کاؤنٹر پر رکھ دیا پھر ذرا دور ہٹ کر اُس کا جائزہ لینے لگا۔
موسیولاں تیں ان تمام حرکات و سکنات پر پریشان ہو رہا تھا۔ اُس نے یہ واضح کرنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ یہ بالکل معمولی قیمت کا ہے لیکن اُس جوہری نے کہا ، ’’جناب اس ہار کی قیمت بارہ سے پندرہ ہزار فرانک کے درمیان ہے لیکن میں یہ ہار صرف اس صورت میں خرید سکتا ہوں کہ آپ اس کی ملکیت کا ثبوت دیں۔‘‘
اُس رنڈوے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا وہ بالآخر بُڑبڑایا، ’’ آپ نے کہا ۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں؟‘‘ اُس دوکاندار نے اُس کے یوں ششدر ہونے پر ایک طرح کے تنفر کا اظہار کیا اور خشک لہجے میں کہا ’’ اگر کوئی اس سے زیادہ قیمت لگاتا ہے تو آپ وہاں چلے جائیں ۔ میرے نزدیک اس کی قیمت پندرہ ہزانر فرانک سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر آپ کو اس سے بہتر قیمت نہ ملے تو میرے پاس دوبارہ آسکتے ہیں۔‘‘
موسیولاں تیں نے احمقوں کی طرح وہ ہار اٹھایا اور دوکان سے باہر نکل گیا۔ اُسے کہیں تنہائی میں اس معاملے پر سوچنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
جونہی وہ سڑک پر پہنچا اُسے ایک قہقہ لگانے کی طلب نے جکڑ لیا، ’’احمق! پاگل! اگر میں اُسے کہتا ، لانکال فرانک، میں اسی قیمت پر اسے بیچتا ہوں ، یہ کیسا جوہری ہے کہ اسے کھوٹے کھرے کی تمیز ہی نہیں ۔‘‘
وہ ایک اور (جواہرات کے ) سوداگر کی دوکان میں گھس گیا جو شارعِ امن *۷ کے آغاز پر واقع تھی ۔ جونہی اُس سنار نے وہ ہار دیکھا وہ حیرت سے چیخ اٹھا۔ ’’ ہاں ہاں، میں اس ہار کو اچھی طرح پہچانتا ہوں ۔ یہ ہماری ہی دوکان کا بنا ہوا ہے۔‘‘
موسیو لا تیں نے شدید گھبراہٹ میں پوچھا، ’’ یہ کتنے کا ہوگا؟‘‘ ’’ جناب! میں نے اسے پچیس ہزار فرانک میں بیچا تھا اور اب میں اس کے اٹھارہ ہزار فرانک دینے کو تیار ہوں ۔ قانونی ضابطوں کو پورا کرنے کے لیے آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ ہار آپ کی ملکیت میں کیسے آیا؟ ‘‘
اب کی بار موسیولاں تیں کو ایک شدید حیرت نے جکڑ لیا۔ ’’ لیکن ۔۔۔ لیکن جناب ذرا اچھی طرح اس کی جانچ کر لیں۔ میں ابھی تک ۔۔۔ اسے نقلی سمجھ رہا تھا۔‘‘
جوہری دوبارہ گویا ہوا ،’’ جناب آپ اپنا نام بتانا پسند کریں گے؟‘‘
’’یقیناً۔۔۔ مجھے لاں تیں کہتے ہیں میں شہداء کی گلی *۸ کے مکان نمبر۶۱میں رہتا ہوں۔‘‘
سوداگر نے اپنے رجسٹر کو کھولے، اُن میں کچھ تلاش کیا اور پھر بولا، ’’ یہ ہار درحقیقت مادام لاں تیں کو مکان نمبر۶۱، شہدا کی گلی کے پتہ پر مورخہ۰۲جولائی۶۷۸۱ء کو بھیجا گیا تھا۔ ‘‘
دونوں اشخاص نے ایک دوسرے کی آنکھوں آنکھوں میں ڈال کر دیکھا ۔ کلرک ایک حیرت کے عالم میں تھا اور جوہری اُسے چور سمجھ رہا تھا۔ جوہری بولا، ’’ کیا آپ اس ہار کو صرف چوبیس گھنٹے کے لئے میرے پاس چھوڑ سکتے ہیں؟ آپ چاہیں تو اس کی رسید لے سکتے ہیں۔‘‘
موسیو لا تیں بُڑبڑایا ، ’’ ہاں یقیناً۔۔۔مجھے منظور ہے ۔ ‘‘ وہ رسید کے کاغذ کو تہہ کر کے جیب میں رکھتے ہوئے دوکان سے باہر نکل آیا ۔ پھروہ سڑک پار ک کر کے دوسری طرف آگیا اور الٹی سمت میں چلنے لگا۔ اُسے یوں لگا کہ وہ راستہ گم کر بیٹھا ہے۔ وہ دوبارہ شہتوتو ں کے باغ *۹کی طرف مُڑ گیا اور دریائے سین کو جب پار کر لیا تو اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ دوبارہ ، بلا ارادہ ’شاں زے لیزے‘ *۰۱(کی سڑک) پر آگیا۔
وہ اس قصّے کوسمجھنے اور اس کا جواز تلاش کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا اُس کی بیوی اتنی (زیادہ )مالیت کا زیور خرید تو نہیں سکتی تھی تو پھر یہ (کسی کا دیا ہوا ) تحفہ تھا؟ تحفہ ۔۔۔ لیکن تحفہ کس کی طرف سے تھا ؟ اور کیوں تھا؟ (یہ خیال آتے ہی ) وہ سڑک کے درمیان رُک گیا اور ایک خوفناک خدشے نے اُسے گھیر لیا
وہ۔۔۔؟
وہ (ایسی تھی) ؟ پھر تو باقی تمام زیورات بھی اُسے تحفے میں ملے ہوں گے۔ اُسے یوں لگا کہ ( اُسے کے پاؤں کے نیچے ) زمین گھوم رہی ہے اورسامنے ایک درخت ڈول رہا ہے۔ اُس نے اپنی بانہیں پھیلائیں اور دھڑام سے گر کر بے ہوش ہو گیا۔
جب اُسے ہوش آیا تو وہ ایک میڈیکل سٹور کے اندر تھا جہاں اُسے راہ گیر اُٹھا کر لے آئے تھے۔ وہ اپنے گھر لوٹ گیا اور اپنے آپ کو ( گھر کے اندر) مقید کرلیا۔
رات ہونے تک وہ بُری طرح روتا رہا اور اپنی چیخوں کو روکنے کے لیے اُ س نے دانتوں میں ایک رومال دبا لیا پھر اُس نے اپنے آپ کو بستر پر گرا لیا اور بوجھل (دل کے ساتھ) گہری نیند سو گیا۔
سورج کی ایک کرن نے اُسے جگایا اور وہ بے دلی سے اپنے دفتر جانے کے لیے اُٹھ بیٹھا۔ اس طرح کے صدمات کے بعد کام پر جانا اُس کے لیے نہایت مشکل تھا، اُس نے سوچا وہ اپنے افسر کو چھٹی کی درخواست بھی تو دے سکتا ہے سو اُس نے عرضی لکھ ڈالی ۔ پھر اُسے خیال آیا کہ اُسے جوہری کی طرف بھی تو جانا ہے۔ ایک ( طرح کی ) شرمندگی سے (اُس کا چہرہ) سُرخ ہو گیا۔ وہ ( اس بارے میں) دیر تک سوچتا رہا۔ وہ بہر حال اُس ہار کوجوہری کے پاس بھی تو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اُس نے کپڑے تبدیل کیے اور نکل کھڑا ہوا۔
موسم خوش گوار تھا ۔ شہر کے اوپر پھیلا ہوا نیلا آسمان مسکراتا ہوا لگ رہا تھا۔ بے فکر لوگ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے (سڑکوں پر) چہل قدمی کر رہے تھے۔
لاں تیں نے راہ گیروں کو دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔ ’’ (درحقیقت) خوش تو وہ ہے کہ جس کے پاس دولت ہے۔دولت کے ساتھ انسان تمام دکھوں سے چھٹکارا پاسکتا ہے ۔ وہ جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے، کسی لمبے بحری سفر پر نکل سکتا ہے اور ہر طرح کی تفریح کرسکتا ہے ۔ کاش میں امیر ہوتا۔
اُسے زوروں کی بھوک ستا رہی تھی کیونکہ اُ س نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ لیکن اُس کی جیب بالکل خالی تھی۔ اسے پھر ہار کی یاد آئی ۔۔۔ اٹھارہ ہزار فرانک ۔۔۔ اٹھارہ ہزار ۔۔۔ یقیناًایک بہت بڑی رقم تھی۔
وہ شارعِ امن پر پہنچ گیا اور دوکان کے سامنے فٹ پاتھ پر اِدھر اُدھر ٹہلنا شروع کر دیا ۔ بیسیوں مرتبہ وہ دوکان کے اندر داخل ہونا چاہتا تھا لیکن ایک خجالت اُسے ہر مرتبہ روک لیتی تھی۔
بھوک کے مارے اُس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اُ س نے اچانک فیصلہ کیا اور اپنے آپ کو کچھ سوچنے کا موقع دیے بغیر وہ سڑک پار کر کے سُنار کی دوکان میں داخل ہوگیا۔
جونہی اُس سوداگر نے اُسے دیکھا ، لپک کر اُسے شائستگی کے ساتھ مسکراتے ہوئے ایک کُرسی پیش کی ۔ دوکان کے ملازمین بھی لاں تیں کے قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ اُن کی آنکھوں سے خوشی جھلک رہی تھی اور اُن کے ہونٹوں پر تبسم تھا۔
جوہری نے کہا ۔ ’’ جناب میں نے ضروری انتظامات کر لیے ہیں اور اگر آپ کی مرضی ہے تو میں ( اس ہار کے بدلے) مذکورہ رقم دینے کو تیار ہوں۔‘‘
کلرک بُڑبڑایا، ’’ جی جی ۔۔۔بالکل۔۔۔ ‘‘
سنار نے ایک دراز سے (ہزار ہزار فرانک کے ) اٹھارہ بڑے نوٹ نکالے اور اُنہیں لاں تیں کی طرف بڑھا دیا۔ اُس نے ایک چھوٹی سی رسید پر دستخط کیے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ رقم اپنی جیب میں رکھ لی۔
وہ دوکان سے باہر نکلنے کو ہی تھا کہ وہ دوبارہ اُس سنار کی طرف مُڑا جو ابھی مُسکرائے چلاجا رہا تھا ۔ اُس نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا، ’’میرے پاس اور بھی زیورات ہیں جو مجھے اسی وراثت میں ملے ہیں ۔ آپ ان کو بھی خریدنا پسند کریں گے؟‘‘
جوہری نے آگے جھکتے ہوئے کہا، ’’ جناب یقینی طور پر میں انہیں خریدنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ دوکان کے ملازموں میں سے ایک اپنی ہنسی روکے باہر نکل گیا اور دوسر ابمشکل اپنی ناک سُڑک کر رہ گیا۔ لاں تیں نے بظاہر کوئی اثر نہ لیتے ہوئے ، سُرخ چہرے (کے ساتھ) گھمبیر آواز میں کہا، ’’ میں ابھی یہ (تمام زیورات) آپ کے پاس لاتا ہوں۔‘‘
اُس نے ایک بگھی والے کو روکا تاکہ وہ جواہرات (جلدی ) لاسکے۔
ایک گھنٹہ بھی نہ گزرا ہوگا کہ وہ اُس جوہری کے سامنے بیٹھا تھا لیکن اُس نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا تھا۔ وہ ایک ایک کر کے اُن (زیورات) کی جانچ پڑتال کرنے لگ گئے اور ساتھ ساتھ اُن کی قیمت بھی لگاتے گئے ۔ شاید وہ تمام زیورات اُسی دوکان سے خریدے گئے تھے۔
لاں تیں اب بھاؤ تاؤ پر بحث کر رہا تھا۔ وہ اُن سے ناراض ہو رہا تھا اور مطالبہ کر رہا تھا کہ اُسے قیمتِ فروخت کا رجسٹر دکھایا جائے۔ وہ اونچی سے اونچی آواز میں بات کر رہا تھا تاکہ وہ قیمتِ فروخت کو بڑھا سکے۔
چمکیلے، بڑے بڑے جھُمکوں کی قیمت بیس (۰۲) ہزار فرانک لگی تھی۔ کنگن پینتیس(۵۳) ہزار، بروچ، انگوٹھیاں اور لاکٹ سولہ (۶۱) ہزار ، نیلم اور زمرّد کا ایک نیکلس چودہ (۴۱) ہزار، سونے کی زنجیر والا ایک گلوبند چالیس (۰۴)ہزار ۔۔۔ کُل ملا کر مجموعی رقم ایک لاکھ چھیانوے ہزار فرانک کے ہندسے تک پہنچ گئی۔
جواہرات کے تاجر نے ایک بھلے مانس کی سی خوش طبعی کے ساتھ کہا، ’’لگتا ہے کہ (تمام زیورات) اُسی شخصیت کے ہیں جس نے اپنی تمام جمع پونچی زیورات میں لگا رکھی تھی!‘‘ *۱۱
لاں تیں نے (قدرے) بھاری آواز میں جواب دیا ، ’’ یہ بھی دوسرے عام ذرائع کی طرح اپنی رقم کو محفوظ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ خریدار (جوہری) کے ساتھ یہ طے کے بعد دوکان سے نکل آیا کہ اگلے دن اِن زیورات کی قیمت کا تخمینہ دوبارہ لگایا جائے گا۔
جب وہ سڑک پر آیا تو اُس نے ’واں دوم ‘کے ستون *۲۱ کو دیکھا ۔ اُس کا جی چاہا کہ وہ اُس ستون پر چڑھ جائے جیسے وہ وہ اُسے کوئی چکنا کھمبا سمجھ رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اُس کا جی چاہا کہ (سڑک کے کنارے پر نصب ) شہنشاہ کے سر بفلک مجسمے پر اُچھل کود کرے ۔*۳۱
وہ ’وو آزیں ‘*۴۱ Voisin)بمعنی ہمسائے ) نامی ریستوران میں ناشتہ کرنے چلا گیا اور وہاں اُس نے بیس فرانک فی بوتل وال ی(مہنگی ) شراب پی۔
پھر اُس نے ایک بگھی (والے) کو روکا اور (اطراف کے) جنگل کی سیر کو نکل گیا ۔ وہ شادی کے عہد و پیمان کو ایک خاص طرح کی نفرت سے دیکھ رہا تھا۔ *۵۱ وہ اس خواہش سے (تقریباً) مغلوب ہو چکا تھا ہ وہ لوگوں سے چلّا چلّا کر کہے، ’’ میں بھی امیر ہوں۔ میرے پاس دو لاکھ فرانک ہیں۔‘‘
اُسے اپنے دفتر کا خیال آیا۔ اُس نے (بگھی والے کو ) وہاں سے چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ اپنے افسرِ اعلیٰ کے کمرے میں بے خوفی سے داخل ہوا اور اُس نے کہا، ’’جناب میں آپ کو اپنا استعفیٰ دینے آیا ہوں ۔ مجھے ایک ( عزیز کی ) وراثت میں تین لاکھ فرانک ملے ہیں۔‘‘
اُس نے اپنے دفتر کے پرانے ساتھیوں سے ہاتھ ملایا اور انہیں اپنی نئی زندگی کے منصوبوں سے آگاہ کیا پھر اُس نے شام کا کھانا ’کافے آنگلے ‘*۶۱ میں کھایا۔
اپنے قریب قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص سے ، جو اُسے معزز معلوم ہو رہا تھا یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ ’’ مجھے چار لاکھ فرانک ترکے میں ملے ہیں۔‘‘
اُسے آج زندگی میں پہلی مرتبہ تھیٹر بُرا نہیں لگا ۔ اُس نے اپنی رات طوائفوں کے ساتھ بسر کی۔
چھ ماہ بعد اُس نے دوبارہ شادی کر لی۔ اُس کی دوسری بیوی بہت ایمان دار تھی لیکن ایک مشکل کردار تھی۔ وہ اپنی (دوسری ) بیوی کے ہاتھوں بہت تنگ رہا۔‘‘

ختم شد

حواشی و تعلیقات
*1- موپاساں کا یہ افسانہ روزنامہ ’’جل بلا ‘‘ میں 27مارچ 1883ء کو شائع ہوا اور بعد ازاں اُس کے افسانوی مجموعہ ’’کلیغ دَلیؤن‘‘ (Clair de Lune) یعنی چاند کی چاندنی یا چاند کی روشنی ) میں شامل ہوا۔
* 2- (ڈرامے کے پہلے شو پر خاص خاص لوگوں کو مدعو کیا جاتا تھا جن میں امراء ووزراء بھی شامل ہوتے تھے اور پہلے دن کا ٹکٹ کافی مہنگا ہوتا تھا اور کئی کئی ماہ پہلے فروخت ہو چکے ہوتے تھے)
*3- (Rhin انگریزی میں Rhine )
*4- (یہاں موپاساں نے لفظ La Pacotille استعمال کیا ہے جس کا اصطلاحی مطلب ہے Goods carried free of charge by passangers or seamen یعنی وہ معمولی اشیاء جو مسافر حضرات بغیر کرایہ دیئے ساتھ لے جاسکتے ہیں یعنی کم وزن اور معمولی قدرو قیمت والی اشیاء۔ اس کا لفظی انگریزی مترادف Shoddy اور Trumpery wareبنتا ہے جس کا مطلب ’’ کوئی نقلی شے جسے اصل ظاہر کرنے کیلئے بنایا گیا ہو۔ نمائشی اور گھٹیا سامان۔)
* 5- (Opera)
*6- (اُن دنوں نمونیہ یعنی پھیپھڑوں کی سوزش ناقابلِ علاج ہوتی تھی اینٹی بائیوٹک ادویات بعد میں ایجاد ہوئی)۔
*7- (La rue du paix)
*8- (Rue des martyrs)
*9- Jardin Tuileries) ’ژاغ دیں تیوئی لیغی‘ پیرس میں دریائے سین کے کنارے پر ایک تاریخی باغ ہے۔ فرنچ میں Tuileri شہتوت کو کہتے ہیں )
*10- (Champs-Elysees )پیرس کی ایک مشہورِ زمانہ سڑک جو دن رات دُنیا بھر سے آئے سیّاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے)
*11- (ڈاکٹر مرتضیٰ عادل نے اس افسانے کا ترجمہ یہاں تک کیا ہے اور درمیان میں سے کئی پیرا گراف، مکالمے غائب ہیں)
*12- (La colonne Vendome)
*13- (یہاں موپاساں نے Saute mouton کی ترکیب استعمال کی کی ہے جس کا لفظی ترجمہ بھیڑ بکریوں کی سی اچھل کود ۔ اس کا انگریزی مترادف ہے Leapfrog ایک کھیل میں ایک کھلاڑی دوسرے گھوڑا بنے ہوئے کھلاڑی کی پشت یا کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے پھلانگ جاتا ہے۔)
*14- Voisin)بمعنی ہمسائے ۔۔۔ایک مہنگا ریستوران )
*15- (موپاساں کی یہاں پوری لائن کچھ اس طرح سے ہے Il regardait les equipages avec un certain meprise اس جملے میں لفظ Equipageاستعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا ، کہ وہ بگھی کو ایک خاص طرح کی نفرت سے دیکھ رہا تھا لیکن یہ بات دل کو نہیں لگتی Equipageکے انگریزی مترادفات یہ ہیں gear, Turn dress, Suite, Carriage اور Plight out ۔ بحوالہ Cassell's French Dictionnary ۔ طابع Macmillan Publishing۔ نیو یارک ، مطبوعہ 1981 صفحہ313۔ جبکہ میرے نزدیک اس کا ترجمہ Plightسے کرنا قرینِ قیاس ہوگا۔ جس کا مطلب -1صورتِ حال (عموماً بُری) ، -2وعدہ کرنا قسم وغیرہ سے پابند کرنا ، بالخصوص شادی کے لیے عہدو پیمان کرنا۔ -3 پیمانِ وفا (بحوالہ ۔ قومی انگریزی اردو لغت۔ مقتدرہ قومی زبان۔ اسلام آباد ۔ صفحہ 1493۔ یہ لفظ Equipage بجنسہہ بھی انگریزی میں استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب حوالہ بالا سے ، -1ساز و سامان ، -2گھوڑا گاڑی ، -3کسی مسلح جہاز کو مہیا کیا جانے والا فرنیچر اور رسد -4 وابستگانِ دولت کی جماعت ،-5گھریلو استعمال کی اشیاء -6ذاتی اشیاء کا ذخیرہ ۔۔۔صفحہ 680)
*16- (Cafe Anglais یعنی (ایک مہنگا) انگریزی ریستوران)

No comments:

Post a Comment