Saturday 24 September 2011

Boule de Suif.....Momi Gainde...مومی گیند

مومی گیند
مسلسل کئی دنوں تک منتشر، شکست خوردہ سپاہی گروہ در گروہ شہر سے گزرتے رہے۔ یہ کوئی باقاعدہ فوجی دستے نہیں تھے بلکہ عسکری خدمات سے فارغ کیے گئے جتھے تھے۔ اُنکی وردیاں پھٹی ہوئی تھیں اور داڑھیاں بے ترتیبی سے بڑھی ہوئی تھیں۔ اُن میں کوئی تنظیم اور نظم و نسق نہیں تھا۔ وہ سُست روی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ سب مضمحل ، نڈھال سے دکھائی دیتے تھے اور کسی نتیجہ خیز فکر ، کسی سوچ سے عاری ہو کر چل رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ جونہی وہ رُکے، تھک ہار کر گر پڑیں گے۔ ان میں خاص طور پر دکھائی دینے والے محفوظ فوجی دستوں کے ارکان تھے جو زمانہء امن میں اپنے ذرائع پر گزر اوقات کیا کرتے تھے ، اب وہ اپنی بندوقوں کے بوجھ تلے دُہرے ہوئے جا تے تھے۔ چھوٹے چھوٹے سریع الحرکت دستے، آسانی سے حوصلہ ہار جانے والے، فوراً ہی پُر جوش ہونے والے ، حملہ کرنے کیلئے مستعد ، فرار ہو نے کیلئے تیار ۔۔۔ انہی میں ملے جُلے کچھ سُرخ نیکر والے، کسی بڑے معرکے میں کٹ مرنے والے ڈویژن کی باقیات، متفرق پیدل فوجیوں کی قطار میں کچھ ملول صورت توپچی تھے اور کبھی کبھار کسی بھاری قدموں والے رسالے کے سوار کا چمکتا ہوا آہنی خود بھی دکھائی دے جاتا جو نہایت سست روی سے چلنے والے فوجیوں کی قطار کے پیچھے بمشکل چل رہا ہوتا تھا۔ چھُپ کر وار کرنے والے گوریلا دستے ، جن کے امتیازی نعرے ، ’’شکست کا انتقام لینے والے‘‘، ’’قبروں کو گھر سمجھنے واے‘‘ ، ’’موت کے ساجھے دار‘‘ وغیرہ تھے ، بدمعاشوں جیسی وضع قطع بنائے گزر رہے تھے۔ ہتھیاروں سے لیس سُرخ اُونی کوٹ پر امتیازی پٹیوں والے عہدیدار ، جو زیادہ تر سابق کپڑے اور غلے کے تاجر تھے یا چربی اور صابن کے سوداگر تھے لیکن حالات (کی مجبوری) کے تحت اور اپنی دولت یا مونچھوں کی لمبائی کی بنا پر افسر بنا دیئے گئے تھے، پاٹ دار آواز میں میدانِ جنگ میں فوجی حکمتِ عملی پر بحث کر رہے تھے۔ بزعمِ خویش فرانس کی بقا کی ذمہ داری صرف انکے کاندھوں پر تھی لیکن بعض اوقات وہ ، اپنے مقصد کیلئے کچھ بھی کر گزرنے والے، اکثر اوقات انتہا کے بہادر، لٹیرے ، اوباش باقاعدہ فوجیوں سے خوفزدہ بھی دکھائی دیتے تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ جرمن فوجیں ’غوآں- میں داخل ہو ا چاہتی ہیں ۔نیشنل گارڈز کے فوجی  دستے دو ماہ سے قریبی جنگلوں میں خطہء ارضی کا باریک بینی سے  جائزہ لے رہے تھے اور اپنے آپ کو لڑائی کیلئے تیار کر رہے تھے ۔ وہ کسی جھاڑی میں حرکت کرنے والے چھوٹے خرگوش پر یا اپنے ہی سنتریوں پر فائر کھول دیتے تھے، اب اپنی بارکوں میں واپس آچُکے تھے۔ اُنکے ہتھیار، وردیاں اور تمام تباہ کن سازو سامان جو قومی شاہراؤں پر بارہ بارہ کلومیٹر تک دہشت پھیلا رہا تھا،اچانک غائب ہو گیا تھا۔ براستہ ’ سیں سَوَے اور ’بوغ آشاغ، ’ پوں تودَ میغ‘ جانے کیلئے آخری سپاہی دریائے سین کو عبور کر رہے تھے۔ سب سے پیچھے مایوس و نامراد، فتح کے عادی لوگوں کی شکست پر ہکّا بکّا، ضرب المثل بہادری کے باوجود شکست خوردہ اور کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکنے والا جنرل اپنے دو ماتحت افسران کے درمیان چل رہاتھا۔ پھر ایک گہرا سناٹا ، خاموش اور خوفناک انتظار شہر پر چھا گیا۔ خوشحال شہری تجارت میں مندے کا شکار ہو کر بے چینی سے فاتحین کی راہ دیکھ رہے تھے اور سہمے ہوئے تھے کہ اُن کی کباب بنانے والی سیخوں اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والے بڑے چاقوؤں کو کہیں ہتھیاروں کے زمرے میں نہ دھر لیا جائے۔ زندگی کا کاروبار رُکا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ دوکانیں بند ، گلیاں خاموش تھیں۔ کبھی کبھار اِس سکوت سے ڈر ا ہوا کوئی شہری دیواروں کے ساتھ لگ کر تیزی سے چلتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ انتظار کی اذیت دشمن کی آمد کی خواہش میں بدلتی جارہی تھی۔ فرانسیسی فوجوں کی واپسی کے اگلے دن بعد از دوپہر کچھ جرمن نیزہ بردار گھوڑ سوار نجانے کس طرف سے آئے اور شہر میں تیزی سے گزرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد ایک سیاہ فوج ’سینٹ کیتھرائن کی طرف سے چڑھ آئی جبکہ دو در انداز ریلے ’دَاغْن تال‘ اور ’بوآء گیلوم کے راستے سے اُمڈتے دکھائی دیئے۔ تینوں فوجوں کے ہر اول دستے بیک وقت ’ہوتیل دَ وِل کے سامنے ایک دوسرے سے آن ملے۔ اب وہ تمام ملحقہ گلیوں میں اپنے فوجی دستوں کو پھیلا رہے تھے جن کے بھاری قدموں کے آہنگ سے سڑکیں گونج رہی تھیں۔ (بظاہر) مردہ اور غیر آباد دکھائی دینے والے گھروں کے سامنے غیر مانوس اور حلق کی گہرائیوں سے نکلتی ہوئی آواز میں فوجی احکامات دیے جا رہے تھے۔ بند کواڑوں کے پیچھے بہت سی آنکھیں اِن فاتحین کو دیکھ رہی تھیں کہ جو، اب جنگی قانون کے تحت، اُن کے شہر ، مال و اسباب اور اُنکی زندگیوں کے مالک تھے۔ تمام شہری اپنے تاریک کمروں میں یوں بد حواسی اور بوکھلاہٹ کا شکار تھے کہ جیسے کسی سیلاب یا کسی مہلک زلزلے کی زد میں آئے ہوئے ہوں اور اس بد نظمی کے خلاف کوئی دانش، کوئی طاقت غیر مؤثر تھی۔ یہ احساس اُس وقت ابھرتا ہے جب نظامِ زیست درہم برہم ہو جائے اور لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوں اور جب وہ سب کچھ، جسے قانونِ فطرت یا لوگوں کے بنائے ہوئے قوانین کا تحفظ حاصل ہوتا ہے ، ایک لا شعوری بے رحم سفاکی کے رحم و کرم پر رہ جائے۔ منہدم مکانوں کے نیچے تمام انسانوں کو ہلاک کرنے والا قیامت خیز زلزلہ، کناروں سے باہر نکلنے والا دریاجس میں ڈوبے کسان، مردہ بیل اور چھتوں سے اُکھڑے شہتیر ایک ساتھ بہہ رہے ہوں، مزاحمت کرنے والوں کو بیدردی سے قتل کرنے والی اور بقیتہ السیف کو قیدی بنا کر ہانکتی ہوئی ، تلوار کی نوک پر لُوٹ مار کرنے والی اور توپ کے گولے سے خدا کا شکر ادا کرنے والی فاتح فوج ۔۔۔ یہ وہ تازیانے ہیں جو ابدی انصاف پر یقین کو متزلزل کر دیتے ہیں اور انسانی معقولات اور آسمان کی نگہبانی کے بارے میں وہ تمام اعتماد جو ہماری گھٹی میں ڈالا جاتا ہے یکسر ختم ہو جاتا ہے۔ پھر ہر دروازے پر چھوٹی چھوٹی فوجیوں کی ٹکڑیاں دستک دیتیں اور گھر کے اندر داخل ہو جاتیں۔ یہ در اندازی کے بعد مکمل قبضے کی شروعات تھیں۔ مفتوحین کیلئے لازم قرار پایا کہ فاتحین کے ہر فیصلے کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں۔ کچھ عرصے بعد جب پہلے سا ڈر خوف نہ رہا تو ایک طرح کا سکون ہوگیا۔ بہت سے گھرانوں میں جرمن فوجی ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ۔وہ کبھی شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرانس سے معذرت خواہانہ انداز اختیار کرتے اور اس جنگ میں حصہ لینے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔ لوگ اُن کے اِس جذبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے کیونکہ کل کلاں اُن کی مدد کی بھی ضرورت پڑ سکتی تھی اور ممکن تھا کہ اس اقدام سے کم لوگوں کو کھانا کھلانا پڑتا اور یہ کہ جس کے رحم و کرم پر ہوں اُسے تنگ ہی کیوں کیا جائے ؟ اس طرح کا عمل شجاعت کم اور بے باکی زیادہ ہوتا ۔ غوآں کے شہری جو کبھی مُلکی دفاع کیلئے رزمیہ جوانمردی میں ممتاز تھے لیکن اب اس طرح کی حماقت ان میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ فرانسیسی تمدن کی امتیازی خصوصیت کی بنا پر وہ گھروں کے اندر تو اُن سے خوش خلقی سے پیش آتے لیکن سرِ عام اجنبی فوجیوں سے میل جول میں احتیاط برتتے تھے۔ گھر سے باہر وہ ایک دوسرے کو پہچاننے سے گریز کرتے لیکن گھر کے اندر روزانہ جرمن فوجیوں کے ساتھ ایک ہی آتشدان کے سامنے بیٹھ کر رات گئے تک خوش دلی سے گپ شپ لگاتے رہتے۔ رفتہ رفتہ شہر کے حالات معمول پر آگئے ۔ فرانسیسی گھروں سے باہر بالکل نہ کھلتے لیکن جرمن فوجی گروہ در گروہ گلیوں میں گھومتے رہتے اور نیلی وردیوں والے رسالے کے افسران سڑکوں پر اپنے مہلک ہتھیاروں کی نخوت سے نمائش کرتے نظر آتے ۔ عام لوگوں کیلئے اُنکی آنکھوں میں اس قدر حقارت نظر نہ آتی کہ جتنی فرانسیسی پیدل فوج کے افسروں کی آنکھوں میں تھی جو گزشتہ سال انہی چائے خانوں میں پیتے پلاتے نظر آتے تھے۔ اس در اندازی کے خلاف شہر کی اجنبی فضا میں ایک پُر اسرار اور ناقابلِ بیان گھمبیرتا محسوس ہوتی تھی جو تمام گھروں اور عوامی مقامات میں رچ بس گئی تھی اور جس نے زبان کے ذائقے تک کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا،یوں لگتا تھا کہ جیسے وحشی اور خطر ناک قبائل کی طرف کہیں دور کی تیاری ہے۔ فاتحین بُری طرح دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے تھے چونکہ وہ امیر تھے لہذا بغیر کسی مزاحمت کے اُنکے مطالبات پورے ہو جاتے۔ اگر کو ئی نارمن لیت و لعل کرتا تو تب بھی وہ اپنی تمام دولت کو دوسروں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے بے بسی سے دیکھتا رہتا۔ اسی دوران شہر سے پندرہ بیس کلو میٹر کے فاصلے پر دریا کے ساتھ ساتھ ’کغو آسّے، ’دی ایپ دال یا ’بی ایسارکی طرف رہنے والے مچھیرے اور شکاری اکثر کسی نہ کسی باوردی جرمن فوجی کی لاش کی خبر لاتے جسے دریا نے اُگل دیا ہوتا ، کسی نے چاقو مار کر ہلاک کر دیا ہوتا ، تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا ہوتا ،جس کا سر پتھر سے کچلا ہوا ہوتا یا جسے کسی نے پُل سے دھکا دے کر دریا میں گرا دیا ہوتا۔ یہ وحشیانہ ، مگر مبنی برحق اور خاموش حملے گمنام سور ماؤں کے کارنامے تھے جو روزِ روشن کی لڑائی سے زیادہ تباہ کُن تھے لیکن اِن کی کھلے عام تعریف و توصیف نہ ہوتی اور تمام ثبوت خموشی سے دریا بُرد کر دیے جاتے کیونکہ اجنبی دشمن کے خلاف نفرت ہمیشہ کچھ نڈر اور بے خوف لوگوں کو کسی نظریے کے تحفظ کیلئے مرنے مارنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ قابض فوجوں کا سخت اور بے لچک نظم و ضبط بھی وہ ڈرا ور خوف پیدا نہیں کر سکا جس کے لئے وہ بدنام تھے حالانکہ اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنی راہ میں آنے والی ہر بستی پر ستم ڈھاتے ہیں۔ پھرشہر کے تاجروں نے ہمت کی اور اُنکے دل میں قابض فوجیوں کے ساتھ دوبارہ گفت و شنید کا احساس جاگ اٹھا۔ ان تاجروں میں سے کچھ لوگ فرانسیسی فوجوں کے زیرِ تسلّط شہر ’ہاوغ جاناچاہتے تھے جہاں اُنکے زبردست مالی اور کاروباری مفادات تھے۔ وہ خشکی کے راستے ’دی ایپ جانا چاہتے تھے تاکہ وہاں سے ’ہاوغ‘ جانے کیلئے بحری جہاز میں سوار ہو سکیں۔ اُنہوں نے شناسا جرمن افسروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور اعلیٰ کماندار جنرل سے ’ہاوغ ‘جانے کیلئے پروانہ راہداری حاصل کر لیا۔ اس سفر کیلئے چار گھوڑوں والی ایک بگھی کا انتظام کیا گیا اور دس لوگوں نے بگھی والے کے پاس اپنے نام مسافروں کی فہرست میں لکھوائے اور طے پایا کہ منگل کے روز سورج نکلنے سے پہلے خموشی سے روانگی ہوگی۔ صبح ساڑھے چار بجے تمام مسافر  ’نار منڈی ہوٹل کے صحن میں جمع ہو گئے جہاں سے انہوں نے بگھی میں سوار ہونا تھا۔ اُنکی آنکھیں ابھی نیند سے بھری تھیں اور وہ اپنے کمبلوں میں لپٹے لپٹائے سردی سے کپکپا رہے تھے۔ بھاری بھرکم گرم کپڑوں کی وجہ سے اُنکے جسم لمبے چوغے پہننے والے موٹے پادریوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ دو مسافروں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا پھر ایک تیسرا بھی انکے قریب آگیا اور وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ایک نے کہا، ’’ میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے جا رہا ہوں‘‘۔ دوسرے نے کہا ہاں میں بھی اپنی بیوی کو ساتھ لے جا رہا ہوں۔ دوسرے شخص نے اضافہ کیا، ’’ ہم غوآں واپس نہیں آئیں گے اور اگر جرمن ہاؤغ کے قریب پہنچ گئے تو ہم انگلستان چلے جائیں گے۔‘‘ اُن سب کے ایسے ہی ارادے اور یہی رجحان معلوم ہوتا تھا۔ ابھی تک گھوڑے بگھی میں نہیں جوتے گئے تھے۔ اصطبل کا خادم ایک چھوٹی سی لالٹین لیے وقتاً فوقتاً ایک تاریک دروازے سے نمودار ہوتا اور جلد ہی کسی دوسرے دروازے میں غائب ہوجاتا۔ کوڑے کرکٹ اور لید سے اٹی زمین پر گھوڑے پاؤں مار رہے تھے۔ اصطبل کے اندر ایک آدمی کی آواز سنائی دیتی تھی جو پیار سے جانوروں کو چمکاررہا تھا۔ گھنگھروؤں کی ہلکی سی جھنکار سے معلوم ہوا کہ گھوڑوں پر ساز کسا جا رہا ہے۔ پھر یہ جھنکار جلد ہی ایک واضح اور مستقل تھرتھراہٹ میں تبدیل ہو گئی جو جانور (کے جسم)کی حرکت سے ہم آہنگ تھی جو کبھی رُک جاتی اور کبھی کسی لوہے کی شام والی لاٹھی سے زمین کھٹکھٹانے پر نکلنے والی مدھم آواز پر دفعتاً دوبارہ شروع ہو جاتی ۔ دروازہ اچانک بند ہو ا اور تمام شور ختم ہو گیا ۔ تمام مسافر ساکت اور خاموش کھڑے کھڑے اکڑ چکے تھے۔ برف کے سفید گالے مسلسل زمین پر گرتے ہوئے روشنی کو منعکس کر رہے تھے۔ برف تمام اشیاء پر جھاگ کی طرح گر رہی تھی اور تمام اشکال کو مٹا رہی تھی۔ برف میں ڈھکے شہر کی گھمبیر خاموشی میں گرتی برف کی ایک بے نام مدہم اور تیرتی ہوئی سرسراہٹ تھی جسے سننے سے زیادہ محسوس کیا جاسکتا تھا اور اسکے علاوہ کچھ نہ سنائی دیتا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ آبی بخارات نے تمام فضا کو بھر دیا ہے اور پانی کے سالمے فضا میں منجمند ہو کر سفید بادل کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور (اس بادل نے) ہر شے کو ڈھانپ لیا ہے۔ وہی آدمی دوبارہ اپنی لالٹین لئے نکلا اُس کے ساتھ ایک گھوڑا رسی سے بندھا چاروناچار کھنچا چلا آرہا تھا۔ اُس نے گھوڑے کو بگھی کے آگے کھڑا کیا اور راسوں کو اچھی طرح سے باندھ دیا۔ وہ دیر تک گھوڑے کے گرد چکر لگاتے ہوئے راسوں کی مضبوطی کی تسلّی کرتا رہا کیونکہ اُس نے صرف ایک ہاتھ کو استعمال کیاتھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھامے ہوئے تھا۔ جب وہ دوسرے گھوڑے کو لانے کیلئے مڑا تو اُس نے دیکھا کہ تمام مسافر ساکت و صامت کھڑے برف سے سفید ہو رہے تھے تو اُس نے کہا ، ’’ آپ لوگ بگھی کے اندر کیوں نہیں بیٹھ جاتے ، کم از کم اس برف سے تو محفوظ ہو جائیں گے‘‘۔ انہوں نے تو ایسا سوچا ہی نہیں تھا ۔ وہ جھٹ سے بگھی میں سوار ہو گئے۔ تینوں مرد اپنی بیویوں کے ساتھ بگھی کی آخری نشستوں پر بیٹھ گئے، باقی سواریاں بچ جانے والی سیٹوں پر بنا کسی لفظ کے تبادلے کے براجمان ہو گئیں۔ بگھی کا فرش پیال اور گھاس پھونس سے ڈھکا ہوا تھا جس کے اندر پاؤں دھنسے جاتے تھے۔ آخری نشستوں پر بیٹھنے والی خواتین اپنے ساتھ کیمیاوی ایندھن سے جلنے والے تانبے کی چھوٹی چھوٹی انگیٹھیاں لائی تھیں، انہوں نے وہ انگیٹھیاں روشن کر لیں اور مدھم آواز میں ایک دوسرے سے اِن کے فوائد بیان کرنے لگیں جو پہلے سے ہی ہر ایک کے علم میں تھے۔ آخرِ کار بگھی چلنے کیلئے تیار ہو گئی۔ چار کے بجائے چھ گھوڑے جوتے گئے کیونکہ اس برف میں گاڑی کھینچنا دشوار دکھائی دیتا تھا۔ باہر سے کسی نے آواز لگائی، ’’کیاسب لوگ سوار ہو گئے ہیں؟‘‘ اندر سے ایک جوابی آواز آئی ’’ ہاں چلیں‘‘ بگھی سست روی سے آگے بڑھنے لگی ۔ پہئیے برف میں دھنس رہے تھے بگھی کا تمام ڈھانچہ کھڑکھڑا رہا تھا۔ ہانپتے ہوئے گھوڑوں کے نتھنوں سے دھواں نکل رہا تھا اور وہ برف پر پھسلے جاتے تھے۔ کوچوان کا لمبا چھانٹا کسی پتلے سانپ کی طرح فضا میں لہرا رہا تھا اور مسلسل جانوروں کے اطرف میں برس رہاتھا۔ گاہے بگاہے کوچوان گھوڑوں کی باگ سے بھی کوڑے کا کام لیتا تھا۔ دن غیر محسوس انداز سے چڑھ آیاتھا۔ برف کے نرم گالے، جنہیں ایک خالص غوآنی نے روئی کی بارش سے تشبیہہ دی تھی ، گرنا بند ہو چُکے تھے۔ ایک ملگجی سی روشنی گہرے سیاہ بادلوں سے چھن کر مضافات کی سفیدی کو اور نمایاں کر رہی تھی۔ راستے کے ساتھ ساتھ درختوں کی ایک قطار کُہرے کی چادر اوڑھے دکھائی دے رہی تھی۔ کبھی کبھی کوئی جھونپڑی دکھائی دے جاتی جس کی تمام چھت برف سے ڈھکی ہوتی ۔ بگھی کے اندر طلوعِ آفتاب کی اُداس روشنی میں تمام مسافر ایک دوسرے کو متجسس نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ بگھی کے آخر میں بہترین نشستوں پر’ موسیو لو آزو‘ اور اُسکی بیوی ایک دوسرے کی طرف منہ کئے سو رہے تھے۔ موسیو لو آزو ’بڑے پُل والی گلی‘ (la rue Grand-Pont)میں شراب کا تھوک کا بیوپاری تھا جو پہلے کسی شراب کے تاجر کے پاس ملازم تھا اور جس کے کاروبار میں گھاٹا پڑنے پر تمام اثاثہ جات موسیو ’لو آزو‘ نے خرید لئے اور اُس کا کام چل نکلا ۔ وہ ارد گرد دیہات کے دوکانداوں کو گھٹیا ترین شراب نہایت سستے داموں بیچتا اور اپنے حلقۂ احباب میں ہوشیاری اور مکاری کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ وہ ایک حقیقی نارمن کی طرح چالاکی اور خوش مزاجی سے بھرپور ، بوٹا قد، پھولا ہوا پیٹ، دونوں طرف سفیدی اُترتے گل مچھوں کے درمیان سُرخ چہرے، دغا بازی اور موقع شناسی کیلئے مشہور تھا۔ ایک شام کمشنرصاحب کے ہاں مقامی معززین میں سے ایک گیت نگار اور کہانی کار،’ موسیو تُوغ نِل‘ نے وہاں اونگھتی ہوئی خواتین کو موسیو لو آزوکی موجودگی سے خبردار کرتے ہوئے ایک جُملہ کسا، ’’ یہاں ٹک نگاہ چُوکی وہاں مال دوستوں کا۔‘‘ یہ ہونٹوں نکلی اور کوٹھوں چڑھی والا معاملہ ہوا۔ شہر بھر میں اور حتیٰ کہ پورے صوبے میں لوگ مہینہ بھر اس بات کے چٹخارے لیتے رہے۔ موسیو لو آزو اچھے اور بُرے ہر طرح کے گھٹیا اور عامیانہ ہنسی مذاق کیلئے مشہور تھا۔ کسی بھی شخص کی زبان سے اُس کا تذکرہ اِس جُملے کے بغیر مکمل نہ ہوتا تھا کہ ، ’’یہ لو آزو تو نہایت ہی گھٹیا اور کمینہ شخص ہے۔‘‘ اُسکی بیوی اونچی لمبی ، مضبوط قد کاٹھ، بلندآواز ، جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچننے والی ، دوکان کا سب حساب رکھنے والی اور اپنے فرائض خوش دلی سے انجام دینے والی عورت تھی۔ اُن دونوں کے پہلو میں اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے جناب’ کاغے لامادوں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ صاحب روئی کے بہت بڑے تاجر تھے ۔ تین دھاگہ بنانے والی فیکٹریاں اُن کی ملکیت میں تھیں، سرکاری اعزاز یافتہ اور مجلسِ عمومی کے رُکن تھے اور حزبِ اختلاف کے لیڈر تھے اور حکومتی پالیسیوں کی شد و مد سے مخالفت کرتے تھے تاکہ حکومت سے تعاون کی صورت میں اپنی بہتر قیمت وصول کر سکیں۔ اُنکی بیوی جو ان سے کافی کم عمر تھی اور غوآں میں فوجی خدمات پر مامور اچھے گھرانوں کے افسروں کی آنکھوں کا تارہ بنی ہوئی تھی۔ سمور کی پوستین میں وہ اپنے شوہر کے رو برو چھوئی مُوئی ، نرم و نازک ، سمٹی سمٹائی لگ رہی تھی اور ملول نظروں سے بگھی کے اُداس اندرون کا جائزہ لے رہی تھی۔ اُن کے ساتھ ’بغے دِی ‘* 3-کے عمر رسیدہ نواب ہیو بیغ اور اُنکی بیگم صاحبہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ نواب صاحب نار منڈی کی قدیم اور اعلیٰ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے لباس کی تراش خراش سے بصد اہتمام اپنی وضع قطع کو شاہِ فرانس ہنری چہارم *4-کی طرح بنا رکھا تھا۔ شاہِ فرانس نے اپنے خاندان کی ’’ اعلیٰ و ارفع‘‘روایت کے مطابق ’بغے وی ‘ والوں کی ایک خاتون کو حاملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں اُس خاتون کے شوہر کو نوابی کا خطاب ملا اور صوبے کا گورنر بنا دیا گیا۔ نواب ہیو بیغ موسیو کاغے لامادوں کے ساتھ جنرل کونسل میں ضلع ’اوغ لیاں کی نمائندگی کرتے تھے ۔ نواب موصوف کی ، ’نانت‘ *5-کے رہنے ایک معمولی بحری قذاق *6-کی بیٹی سے شادی ہمیشہ ایک پُر اسرار معاملہ بنی رہی ۔ نواب صاحب کی بیگم خاصی جاذب نظر تھیں اور مہمانداری میں لاثانی شہرت رکھتی تھیں۔ موصوفہ کو (شاہِ فرانس)لوئی فلپ کے ایک بیٹے کی داشتہ رہنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ شہر بھر کے تمام معززین بسر وچشم انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اُن کی ضیافتیں تو ملک بھر میں عدیم المثال تھیں جہاں قدیمی رکھ رکھاؤ اور آدابِ محفل کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا؛ ان ضیافتوں کا دعوت نامہ حاصل کرنے کیلئے خاصی تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ ’بغے وِی‘ والوں کی جائیداد سے آمدنی (ایک محتاط اندازے کے مطابق ) پچاس لاکھ فرانک *7-تک پہنچ چُکی ہے۔ بگھی کی آخری اور بہترین نشستوں پر بیٹھے ہوئے چھ افراد اعلیٰ اشرافی جاگیردار طبقے کی نمائندگی کرتے تھے اور بزعمِ خویش اپنے آپ کو مذہب اور اخلاق کے معاملات میں حرفِ آخر سمجھتے تھے۔ عجیب اتفاق تھا کہ تینوں خواتین ایک ہی طرف بیٹھی ہوئی تھیں۔ نواب صاحب کی بیگم کے قریب دو عیسائی راہبائیں ایک لمبی تسبیح پر زیرِ لب خداوندِ یسوع کی دُعائیں پڑھ رہی تھیں۔ اُن میں سے ایک بہت بوڑھی تھی اور اُس کے دھنسے ہوئے چہرے پر چیچک کے داغ نمایاں تھے ( اور اس چیچک کی وجہ سے) اُس کا جسم کسی مشین گن کی باڑھ کی زد میں آیا ہوا معلوم ہوتا تھا ۔ دوسری نہایت لاغر اور مریل سی تھی۔ وہ چہرے مُہرے سے خوبصورت تھی لیکن بیمار دکھائی دیتی تھی۔ اُس کے مدقوق سینے کو اُسکے عقیدے نے کھالیاتھا وہ عقیدہ جو کچھ لوگوں کو شہادت سے ہمکنار کرتا ہے اور بعضوں کو عرفانِ ذات عطا کرتا ہے ۔ اُن دنوں مذہبی خواتین کے بالمقابل ایک مرد اور ایک عورت تمام لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ مرد کا نام’ ’کوغ نیودے‘‘ عرف بابائے جمہوریت تھا ۔ وہ عرصہ بیس سال سے جمہوری ایوانوں کی غلام گردشوں میں جوتیاں چٹخارہا تھا۔ اپنے حلوائی باپ کی طرف سے ملنے والی معقول وراثت اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر اُڑا چکا تھا اور اب اسے دورِ جمہوریت کا شدت سے انتظار تھا تاکہ انقلاب کے دوران ہونے والے اپنے نقصانات کا ازالہ کر سکے اور اپنی سابقہ حیثیت بحال کرسکے۔ چار ستمبر کو شاید کسی مذاق کے نتیجے میں اُسے یقین ہوگیا کہ اُسے پولیس کمشنر کے عہدے کیلئے نامزد کر دیا گیا ہے لیکن جب وہ کمشنری میں داخل ہونے لگا تو دفتر کے ملازموں نے اُسے پہچاننے سے انکار کر دیا سو اُسے مجبوراً بے نیل و مرام واپس آنا پڑا۔ اِس حماقت سے قطع نظر و ہ مرنجانِ مرنج ،منکسرِ المزاج، نیک طینت شخص تھا اور ایک بے مثال سرگرمی سے مادرِ وطن کے دفاع میں مصروف تھا۔ اُس نے دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کیلئے میدانی راستوں میں متعدد گڑھے کھودے اور اُنہیں درختوں کی شاخوں سے ڈھانپ دیا ۔ اُس نے تمام گزر گاہوں پر پھندے بچھائے اور دشمن کے قریب پہنچنے سے پہلے جلد ہی وہ شہر کی طرف لوٹ آیا۔ اپنی اِن دفاعی تیاریوں سے وہ مطمئن تھا اور اب سوچ رہا تھا کہ وہ ’ہاوغ چلا جائے جہاں نئے سرے سے قلعہ بندی لازمی ہو چکی تھی اور خندقوں کی کھدائی ناگزیر ہو گئی تھی۔ اُس کے برابر والی عورت ایک خاص اندازِ دلربائی کی حامل تھی۔ وہ اپنے بھرے بھرے اور گداز جسم کیلئے مشہور تھی۔ اُسکے قبل از وقت فربہی مائل سراپے کی بنا پر اُسکا نام ’’مومی گیند‘‘ *8- پڑ گیا تھا۔ بُوٹا سا قد، گول مٹول سراپااور چربی کی تہوں کے باوصف وہ بھرپور جوان سُؤرنی لگتی تھی۔ اُسکی انگلیاں موٹی اور پوریں تسبیح کے چھوٹے چھوٹے دانوں کی طرح گول گول تھیں۔ اُس کی جلدکَسی ہوئی اور چمکدار تھی، اُس کی غیر معمولی طور پر بڑی بڑی چھاتیاں اُس کے گریبان سے چھلکتی تھیں۔ وہ انہی اوصاف کی بنا پر ہر دل عزیز اور مقبول تھی۔ اُس میں بے پناہ تازگی تھی جو آنکھوں کو بھلی معلوم ہوتی تھی۔ اُس کا چہرہ سُرخ سیب یا کھلتے ہوے گلِ لالہ کی طرح تھا۔ خوبصورت سیاہ آنکھوں پر جُھکی ہوئی گہری پلکیں، غنچہ دہن ، بوس و کنار کی دعوت دیتے ہوئے ترو تازہ ہونٹ اور موتیوں کی طرح چمکتے ہوئے چھوٹے چھوٹے دانت ۔۔۔ الغرض وہ اس طرح کی انمول اور بیش بہا خصوصیات سے مالا مال تھی۔ جیسے ہی اُسے پہچان لیا گیا تو شریف خواتین نے آپس میں کانا پھوسی شروع کر دی ۔ ’طوائف ‘اور’ ننگِ عوام‘ جیسے الفاظ جب اونچی آواز میں ادا ہوئے تو اُس نے اپنے سر کو اٹھا کر اُن خواتین کو اس طرح بے خوفی سے گھور کر دیکھاکہ یکدم گہری خموشی چھا گئی اور ہر شخص نے اپنی نظریں نیچی کرلیں سوائے ’’لوآزو‘‘ کے جو اُسے پُر اشتیاق نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ جلد ہی اُن تین خواتین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ اُنہیں اِس لڑکی کی موجودگی نے اچانک ہی رازدار سہیلیاں بنا دیا تھا۔ انہوں نے اپنا مشترکہ فرض سمجھا کہ اُس بکاؤ بیسوا کے سامنے شادی شدہ ہونے کی فضیلت کا اظہار کریں کیونکہ رسمی اور قانونی محبت نے ناجائز تعلقات کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔ ’کوغ ینودے‘ کے معاملے میں تینوں شرفاء کو بھی جبلّی قدامت پسندی نے ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا۔ مالی معاملات پر بات کرتے ہوئے اُن کے لہجے میں غریبوں کیلئے ایک خاص طرح کی نفرت تھی۔ نواب ہیو بیغ جرمنوں کے ہاتھوں مویشیوں کی چوری اور فصلوں میں ہونے والے امکانی نقصانات کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک کروڑ پتی جاگیر دار پُر اعتماد تھا کہ یہ نقصان ایک ہی سال میں پورا ہو جائے گا۔ موسیو’ کاغے لامادوں‘ نے روئی کی صنعت میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اتنی عقلمندی کی کہ چھ لاکھ فرانک انگلستان بھجوا دیے تاکہ آڑے وقت میں کام آسکیں جبکہ موسیو ’لوآزو‘ نے عامیانہ شراب کا بقیہ تمام ذخیرہ جو ایک غار میں محفوظ تھا ، فرانسیسی حکومت کے مختلف محکمہ جات کو فروخت کرنے کا بندوبست کر لیاتھا اور طے پایا تھا کہ اس بھاری رقم کی ادائیگی حکومت انہیں ’ہاوغ‘ میں کرے گی۔ اُن سب کی آنکھوں میں ایک دوسرے کیلئے پسندیدگی تھی اور اُنکی نظریں تیزی سے ایک دوسرے کا طواف کر رہی تھیں۔ مختلف پس منظر رکھنے کے باوجود دولت نے انہیں بھائی بند بنا دیا تھا۔ وہ ایسے دولت مند تھے جو فری میسنوں*9-کی طرح پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سونے کے سکّے چھنکاتے پھرتے تھے۔ بگھی اتنی سست رفتاری سے چل رہی تھی کہ صبح دس بجے تک بمشکل وہ سولہ کلومیٹر*10-کا فاصلہ طے کر پائے تھے۔ تمام مردوں نے تین مرتبہ اُتر کر چڑھائی پیدل پار کی۔ انہیں بے چینی ہو رہی تھی کیونکہ اُنکا خیال تھا کہ ناشتے کے وقت وہ ’توت‘ پہنچ جائیں گے لیکن اب رات پڑنے سے پہلے وہاں تک پہنچنا ناممکن لگتا تھا۔ ہر کوئی راستے میں پڑنے والی کسی سرائے کو دیکھ رہاتھا۔ ایسے میں بگھی ایک برف کے ڈھیر میں پھنس گئی جسے وہاں سے نکالنے میں دو گھنٹے صرف ہو گئے۔ بھوک ہر لحظہ بڑھتی جارہی تھی ۔ سب کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے لیکن راستے میں کوئی ڈھابہ ، کوئی شراب خانہ، دکھائی نہ پڑاکیونکہ جرمنوں کی آمد اور بھوکے فرانسیسی فوجیوں نے راستے میں پڑنے والے دوکانداروں ، صنعت کاروں کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ مرد حضرات نے سڑک کے کنارے دیہاتیوں کے گھروں پر کچھ اشیائے خوردو نوش حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں روٹی کا ایک ٹکڑہ تک نہ ملا کیونکہ کسانوں نے ڈر کے مارے اپنے ذخیرہِ اناج کو چھپا رکھاتھا ، وہ اس لئے کہ بھوکے فوجیوں کو جو کچھ بھی نظر آتا تھا بزورِ قوت چھین لیتے تھے۔ دوپہر ایک بجے کے قریب موسیو ’لو آزو‘نے اعلان کیا کہ بھوک کے مارے اُس کے معدے میں مروڑ اُٹھ رہا ہے۔ ہر کوئی کافی پہلے سے اس کیفیت میں مبتلا تھا۔ ہر لمحہ بڑھتی ہوئی کھانے پینے کی خواہش نے گفتگو کے سلسلے کو منقطع کر دیا تھا۔ وقتاً فوقتاً جب کوئی جمائی لیتا تو دوسرا بھی اُسکی پیروی کرتا لیکن ہر کوئی اپنی شخصیت ، آدابِ زندگی کی سمجھ بُوجھ اور اپنی سماجی حیثیت کے مطابق مُنہ کھولتا۔ کوئی پورا مُنہ کھولتا، کوئی پورا منہ کھول کر بلند آواز میں جمائی لیتا ، کوئی ذرا سا منہ کھولتا اور کھُلے ہونٹوں کے سامنے فوراً ہی مہذب طریقے سے ہاتھ رکھ دیتا جہاں سے بھاپ نکل رہی ہوتی تھی۔ مومی گیند کئی مرتبہ نیچے کی طرف جھُکی جیسے کہ وہ اپنے لمبے ایپرن کے نیچے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ اُس نے جھجکتے ہوئے اپنے ہمراہیوں کو دیکھا اور پھر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی سب کے چہرے زرد اور مرجھائے ہوئے تھے۔ لو آزو نے قطعی طور پر کہا کہ وہ سؤر کی ایک ران کیلئے ایک ہزار فرانک دینے کو تیار ہے ۔ اُس کی بیوی نے اشارتاً (اس فضول خرچی پر) احتجاج کیا لیکن پھر وہ چُپکی ہو رہی ۔ وہ دولت کے ضیاع کا سُن کر ہمیشہ ملول ہو جاتی۔ اسراف کے موضوع پر ہنسی مذاق بھی اُس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی‘‘ نواب صاحب نے کہا۔ پتا نہیں مجھے کیوں خیال نہ آیا کہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی ساتھ لیتے جائیں ۔ ہر کسی کہ یہی ملال تھا۔ ’کوغ ینود ے‘ کے پاس رم *11- کی ایک بھری ہوئی چھاگل تھی اُس نے سب کو دعوت دی لیکن سب نے اُس کی پیشکش سرد مہری سے مسترد کر دی۔ صرف’ لو آزو‘ نے دو گھونٹ لیے اور چھاگل واپس کرتے ہوئے اُسکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ۔ ’’یہ تو بہت بڑھیا ہے۔ گرمائش پہنچاتی ہے اور بھُوک ماردیتی ہے۔‘‘ الکوحل نے اُس کی شگفتگی کو بحال کیا تو اُس نے تجویز دی کہ کیوں نہ ہم بھی ایسا ہی کریں؟ اُس نے اُس گیت کی طرف اشارہ کیا جس میں (بحری جہاز کی غرقابی کے بعد) زندہ بچ جانے والے مسافر لائف بوٹ پر سب سے موٹے آدمی کو کھا جاتے ہیں۔ مومی گیند کی طرف یہ بالواسطہ کنایہ مہذب لوگوں کو ناگوار گزرا اور انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، صرف ’کوغ نیودے‘ مُسکرا کر رہ گیا۔ دونوں مقدس بہنوں نے تسبیح کرنا بند کر دی تھی اور اپنے ہاتھ لمبی آستینوں میں چھپا رکھے تھے۔ وہ بالکل ساکت تھیں اور مستقل اپنی نظروں کو جھکائے ہوئے بلا شبہ اس آزمائش کو خُدا کی طرف سے سمجھ رہی تھیں۔ بالآخر سہ پہر تین بجے کے قریب اُنہوں نے اپنے آپ کو ایک تاحدِّ نظر وسیع میدان کے درمیان پایا جہاں دُور دُور تک کسی گاؤں کے کوئی آثار نہ تھے۔مومی گیند نے جلدی سے جھُک کر اپنی نشست کے نیچے سے ایک بڑی سی ٹوکری نکال لی جو ایک سفید تولیے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ پہلے اُس نے ایک چینی کی چھوٹی پلیٹ اور چاندی کا ایک نفیس کٹورہ نکالا، پھر ایک بڑا سا مٹی کا ( بنا ہوا) ڈونگا نکالا جس میں پورے دو مُرغ بوٹیوں کی شکل میں ٹماٹر کی چٹنی میں پکے ہوئے تھے۔ ٹوکری میں اچھی طرح سے ملفوف کی گئی قیمے والی کچوریاں، پھل اور دیگر اشیاء چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ تمام اشیائے خوردنی تین دن کے سفر کیلئے تیارکی گئی تھیں تاکہ ہوٹلوں کے کھانوں سے اجتناب کیا جاسکے۔ خوراک کے لفافوں کے درمیان (شراب کی ) چار بوتلوں کی گردنیں بھی جھانک رہی تھیں۔ اُس نے مرغی کی ایک بوٹی لی اور اُسے نفاست کے ساتھ ایک چھوٹی سی ڈبل روٹی ، جسے نارمنڈی میں ’غے ژانس کہتے ہیں ،کے ساتھ کھانے لگی۔ تمام نظریں اُس کی طرف اُٹھ گئیں ۔ کھانے کی خوشبو پھیلی تو سب کے نتھنے پھیلنے لگے ، منہ میں پانی بھر آیا اور کانوں کے نیچے جبڑے تشنج کی وجہ سے درد کرنے لگے۔ خواتین کی نفرت اُس کے خلاف بڑھتی جا رہی تھی۔ اُن کا جی چاہتا تھا کہ وہ اُسے قتل ہی کر دیں یا اُسے تمام کھانے پینے کی اشیاء ، ٹوکری اور ڈونگے سمیت بگھی سے باہر برف پر پھینک دیں۔ لیکن ’لوآزو‘ کی نظریں بوٹیوں والے ڈونگے پر تھیں۔ اُس نے کہا، ’’ مادام نے ہم سے زیادہ پیش بینی اور حفظِ ماتقدم کا مظاہرہ کیا۔ یقیناًکچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ ہر طرح کے(ممکنہ) حالات کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘‘ مومی گیند نے ’لوآزو‘ کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور کہا ’’ جناب! کیا آپ کچھ لینا پسند کریں گے؟ اور صبح سے ( اس وقت تک) بھوکا رہنا کتنا مشکل ہے۔‘‘ وہ آداب بجا لایا اورکہنے لگا ’’ میرے خدا! بلا تکلف ، میں انکار نہیں کروں گا بلکہ میں انکار کر ہی نہیں سکتا اورحالات کو جوں کا توں قبول کرناچاہئیے ۔ کیوں مادام؟ ‘‘ اُس نے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے مزید کہا ، ’’ ایسے (آڑے ) وقت میں (آپ کی طرح کے) مخیر اور محسن لوگوں کا ملنا بڑی راحت کا سبب ہے۔‘‘ اُس کے پاس ایک اخبار تھا جسے اُس نے اپنی پتلون کو داغ سے بچانے کیلئے گود میں پھیلالیا اوراپنی جیب میں ہمیشہ رہنے والے چاقو کی نوک سے اُس نے ٹماٹر کی چٹنی سے لتھڑی ہوئی مرغی کی ایک ٹانگ اُٹھائی ، دانتوں سے کاٹا اور اتنے اطمینان بخش طریقے سے کھانے لگا کہ بگھی میں ایک نہایت کربناک کیفیت پیدا ہو گئی لیکن مومی گیند نے عاجزانہ اور ملائم لہجے میں دونوں راہبہ بہنوں کو اپنے کھانے میں شرکت کی دعوت دی۔ انہوں نے فوراً ہی اس پیش کش کو قبول کر لیا اور شکریے کے چند الفاظ منمناتے ہوئے تیزی سے کھانے لگیں۔ ’کوغ ینودے‘ بھی اپنی ہم نشیں کی پیشکش نہ ٹھکرا سکا اور دونوں راہباؤں کے ساتھ مل کر اخبا رگود میں رکھتے ہوئے اُسکا میز سا بنا لیا۔ تمام لوگوں کے مُنہ بلا توقف چل رہے تھے اور وہ وحشیانہ انداز میں ہر چیز کو ہڑپ کیے جا رہے تھے۔’لوآزو‘ ایک کونے میں اپنی بیوی کو دھیمی آواز میں قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے کافی دیر تک مزاحمت کی لیکن جب آنتوں میں ایک شدید اینٹھن کی لہر اُٹھی تو اُس نے ہار مان لی۔ پھر اُسکے خاوند نے بات کو گھما پھرا کر اپنی ’طرحدارہمراہی‘ سے التجاکی کہ اُس کی بیوی کو بھی کچھ کھانے کیلئے دیا جائے۔ اُس نے ایک دلآویز مسکراہٹ کہا۔ ’’کیوں نہیں ، بسروچشم جناب!‘‘ اور ڈونگے کو اُس کی طرف بڑھا دیا۔ ایک مشکل اُس وقت پیش آئی جب ارغوانی شراب *12-کی پہلی بوتل کو کھولا گیا۔ اُس کے پاس صرف ایک ہی کٹورہ تھا ، سب اُسی پیمانے کو جھاڑ پونچھ کر گردش میں لائے صرف ’کو غ نیودے‘ نے عاشق مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے (پیالے پر ) ہونٹ اُس جگہ رکھے جہاں مومی گیند کے ہونٹوں کے نم آلود لمس کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بغے وی کے نواب صاحب ، اُن کی بیگم ، موسیو اور مادام کاغے لامادوں کے ارد گرد لوگ کھائے چلے جا رہے تھے اور انہیں (انواع و اقسام کی) خوراک سے وحشت ہو رہی تھی اور انہیں ’طنطالوس* 13- کی طرح لوگوں کا خوراک کیلئے مکروہ طریقے سے التجا کرنا نہایت شاق گزر رہا تھا۔ اچانک کارخانہ دار ( کاغے لامادوں) کی نوجوان بیوی نے ایک گہرا سانس لیا سب مُڑ کر اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ اُس کا چہرہ باہر پڑنے والی برف کی طرح سفید ہو رہا تھا۔ اُسکی آنکھیں بند ہو گئیں اور پیشانی ڈھلک گئی۔ وہ غش کھا گئی تھی ۔ اُس کے خاوند نے سب کو ہذیانی کیفیت میں مدد کیلئے پکارا۔ سب کے ہوش اڑ گئے لیکن دونوں راہباؤں میں سے بڑی والی نے مریضہ کے سر کو تھاما اور مومی گیند کے شراب والے کٹورے سے چند گھونٹ اُس کے حلق میں انڈیل دیئے۔ خوبصورت خاتون نے ذرا حرکت کی اور خفیف سا مسکرائی اور مریل سی آواز میں اُس نے کہا کہ اب وہ بہت بہتر محسوس کر رہی ہے۔ بڑی راہبہ نے کہا ،’’ یہ غش صرف بھوک کی وجہ سے ہے اور کوئی سبب نہیں۔‘‘اس صورت حال کے اعادہ سے بچاؤ کیلئے ارغوانی شراب کا پورا مگ زبردستی اُسے پلا دیا۔ مومی گیند کے کانوں کی لوئیں سُرخ ہو رہی تھیں اور وہ گھبرا رہی تھی۔ وہ (بقیہ) چار بھوکے مسافروں کی طرف دیکھتے ہوئے ہکلائی، ’’ میرے خُدا ۔۔۔ خواتین و حضرات ! اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں کچھ پیش کرنے کی جسارت کروں ۔۔۔‘‘ (اتنا کہہ کر ) وہ چپ ہو رہی ۔ وہ (جوابی) تذلیل سے ڈر رہی تھی۔ ’لوآزو‘ نے بات اُچک لی او رکہا، ’’بے شک اس طرح کی صورتِ حال میں ہم سب بھائی ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئیے ۔ چلیں! محترم خواتین، تکلفات کو بالائے طاق رکھیں اور اس پیش کش کو قبول کر لیں اور کیا خبر کہ آج ہمیں شب بسری کیلئے کوئی چھت میسّر آسکے ۔۔۔ اور موجودہ رفتار سے تو ہم کل دوپہر تک بھی بمشکل ’توت پہنچ سکیں گے۔‘‘ وہ چاروں ہچکچا رہے تھے ، ہر کوئی پہل کرنے کی ذمہ داری اٹھانے سے ڈر رہا تھا۔ نواب صاحب نے اس مرحلے کو آسان کیا۔ وہ ڈری ہوئی موٹی لڑکی کی طرف مُڑے اور بڑے مربیانہ لہجے میں کہا، ’’ خاتون ہم اس پیشکش کو شُکر یے کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔‘‘ پہلا قدم ہی مشکل تھا۔ ایک مرتبہ جب ’روبی کوں*14- کو عبور کرنے کا مرحلہ طے کر لیا تو ( سب کھانے) پر پِل پڑے اور ٹوکری منٹوں میں خالی ہو گئی لیکن ابھی اس میں بڑی کلیجی کا اُبلا ہوا قیمہ ، چکاوک کا *15-کا قیمہ ، بھُنی ہوئی گاؤ زبان ، ’کراساں کے بگو گوشے (نرم ناشپاتی) ، ’پُوں لے ویک ، کے پنیرکا ایک ٹکڑا، کچھ بسکٹ اور سرکے میں بنے ککڑی اور پیاز کے اچار سے لبالب بھرا ہوا ایک چھوٹا سا مرتبان باقی تھا۔ مومی گیند کو بھی تمام عورتوں کی طرح چٹپٹے کھانے پسند تھے۔ اب جبکہ سب اُسی کا دیا ہوا کھانا کھا رہے تھے سو اُس سے ہمکلام ہونا بھی ضروری ہوگیا تھا ۔پہلے تو رسمی باتیں ہوئیں بعد ازاں کُھل کھلا کر گپ شپ ہونے لگی۔ مادام بغے وی اور مادام کاغے لامادوں رکھ رکھاؤ اور شائستگی سے پیش آئیں۔ نواب صاحب کی بیگم نے بالخصوص اعلیٰ طبقے کی خواتین کے امتیاز کے طور پر بلند تر سطح پر رہتے ہوئے منکسرُ المزاجی کا مظاہرہ کیا لیکن قومی البحثہ مادام لو آزو ، جس کے اندر کسی پولیس والے کی روح تھی،لیے دیے رہی اور لاتعلق دکھائی دی۔ اُس نے باتیں کم کیں اور کھایا بہت۔ فطری طور پر وہ جنگ کے موضوع پر آگئے ۔ انہوں نے جرمنوں کے خوفناک واقعات بیان کیے اور فرانسیسیوں کی بہادری کی داستانیں سنائی گئیں۔ یہ تمام لوگ خود تو فرار ہو رہے تھے لیکن دوسروں کی جرأت و استقامت کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے؛ لیکن جلد ہی اپنی ذاتی سر گذشت بیان کرنے پر آگئے ۔ مومی گیند جب اپنی آپ بیتی سنانے لگی تو اُس کا فطری جوش و خروش اور جذبات گرمئ گفتار میں ڈھل رہے تھے۔ اُس نے بتایا کہ اُس نے’ غوآں‘ کیسے چھوڑا۔’’مجھے پہلے تو یقین تھا کہ میرا یہاں رہنا ممکن ہوگا۔ میرا گھر اناج سے بھرا ہوا تھا۔ کسی نامعلوم جگہ پر جلاوطنی سے بہتر تھا کہ میں وہاں رہ کر کچھ فوجیوں کا پیٹ بھرتی رہوں لیکن میں نے جب ان جرمنوں کو دیکھا تو میرا خون کھول اٹھا اور میں غم و غصے سے سارا دن روتی رہی۔ کاش میں مرد ہوتی ۔۔۔ چلیں جانے دیں ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی بالائی کھڑکی سے گلی میں ان تکونی فولادی ٹوپیوں والے موٹے سؤروں کو گزرتے ہوئے دیکھا کرتی تھی اور میر ی خادمہ میرا ہاتھ پکڑ لیتی، کہیں میں غصے میں آکر اپنا فرنیچر ان کے سروں پر نہ دے ماروں۔ پھر اِن میں سے کچھ میرے گھر قیام کرنے آگئے۔ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے ( فوجی ) پر جھپٹ پڑی اور اُسکے گریبان کو پکڑ لیا۔ دوسروں کی نسبت اُنکا گلا گھونٹنا کوئی زیادہ مشکل نہیں تھا اور اگر وہ مجھے بالوں سے پکڑ کر کھینچ نہ لیتے تو میں نے اُسے مار ہی دیا ہوتا ۔ اس کے بعد میرا وہاں سے غائب ہونا ضروری ہوگیا تھا۔ مجھے ایک موقع مل گیا سو میں وہاں سے نکل پڑی اور اب میں آپ کے ساتھ ہوں۔ سب نے اُس کی تعریف و توصیف کی۔ وہ اپنے آپ کو اپنے ہمراہیوں کی نسبت سُرخرو محسوس کر رہی تھی کیونکہ انہوں نے اس طرح کی جرأت کا مظاہرہ نہ کیا تھا۔’ کوغ نیو دے‘ ایک مربیانہ تبسم کے ساتھ (اُسکی سرگذشت) سُن رہاتھا کہ جیسے کوئی پادری پُر خلوص مناجات کو سنتا ہے ، یوں بھی تمام جمہوریت پسندوں نے حُب الوطنی پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی کہ جیسے عباپوش (علمائے دین) مذہب کے معاملات میں خود کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں ۔وہ اپنی باری پر غیر عملی نظریہ پرستوں کے لب و لہجے میں یوں گویا ہوا کہ اُس کا ’’پر شکوہ خطاب ‘‘ دیواروں پر روزانہ چپکائے جانے والے اشتہاراتِ عام سے اخذ کردہ تھا۔ اپنی تقریر کے آخر میں اُس نے کچھ زورِ بیاں نپولین کو لتاڑنے میں صرف کیا اور اُسے آوارہ ، بد چلن اور عیاش کہا۔ مومی گیند یکدم بگڑ گئی کیونکہ وہ ’نپولین بونا پارٹ‘ *16- کے طرفداروں میں سے تھی۔وہ چیری سے بھی زیادہ سرخ ہو گئی اور اُس نے برہمی سے ہکلاتے ہوئے کہا ، ’’میں آپ کو اور دوسروں کو اپنی حد کے اندر دیکھنا پسند کروں گی اور ہاں یہی مناسب ہوگا ۔۔۔ تم لوگوں نے اُسے دھوکہ دیا اور تم جیسے مکاروں کی حکومت میں رہنے سے بہتر ہے کہ فرانس چھوڑ دیا جائے۔‘‘ اس بات کا کوغ ینودے پر کوئی اثر نہ ہوا (اُسکے ہونٹوں پر) ایک نفرت آمیز متکبرانہ مسکراہٹ تھی لیکن وہ محسوس کر رہا تھا کہ تلخ کلامی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نواب صاحب نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے قطعی فیصلہ دیا کہ تمام پُر خلوص آراء کا احترام کیا جائے ۔ وہ بمشکل چپ ہو رہی لیکن ابھی مشتعل تھی ۔ نواب صاحب کی بیوی اور کارخانہ دارنی کے دلوں میں جمہوریت کیلئے ایک بلاوجہ کی نفرت تھی اور تمام عورتوں کی طرح فوجی آمریت اور مطلق العنان حکومتوں کیلئے ایک نرم گوشہ تھا۔ وہ اِس عزتِ نفس سے بھر پور طوائف کی طرف ایک جھکاؤ محسوس کر رہی تھیں کیونکہ اِن کے جذبات و احساسات میں حد درجہ ہم آہنگی تھی۔ ٹوکری تمام خالی ہو چُکی تھی وہ دس بجے تک بغیر کسی مشکل کے سب کچھ چٹ کر چکے تھے اور افسوس کر رہے تھے کہ ( وہ ٹوکری) کچھ اور بڑی کیوں نہیں تھی۔ کچھ دیر با ہم گفتگو چلتی رہی تاہم اس میں کچھ سر د مہری آگئی کیونکہ کھانے پینے کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا۔ رات آہستہ آہستہ گہری ہو تی جا رہی تھی ۔ کھانے کے بعد سردی کچھ زیادہ محسوس ہو رہی تھی اور مومی گیند چربی کی تہوں کے باوجود کانپ رہی تھی۔ نواب صاحب آف بغے وی کی بیگم نے اُسے اپنی انگیٹھی پیش کی جس کے ایندھن کی صبح سے کئی مرتبہ تجدید کی جا چُکی تھی۔ اُس نے فوراً اس پیشکش کو قبول کر لیا کیونکہ وہ محسوس کر رہی تھی کہ اُس کے پاؤں (برف کی طرح) جم چُکے ہیں۔ مادام کاغے لامادوں اور مادام ’لوآزو‘ نے اپنی انگیٹھیاں دونوں راہباؤں کو دے دیں۔ کوچوان اپنی لالٹینیں روشن کر چکا تھا۔ دونوں اطراف میں جُتے ہوئے گھوڑوں کے پُٹّھوں سے اٹھنے والی بھاپ اس چمک دار روشنی میں جھلملا رہی تھی اور یوں دکھائی دیتا تھا کہ راستے کے دونوں طرف کی برف ، روشنیوں کے متحرک عکس کے نیچے سرک رہی ہے۔ بگھی کے اندر ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دیتا تھا۔ اچانک مومی گیند اور’کوغ نیودے‘ کے درمیان کوئی حرکت سی ہوئی۔’ لو آزو‘دیدے پھاڑ کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہاتھا۔ اُسے یقین ہو گیا کہ لمبی داڑھی والا اچانک پیچھے ہٹ گیا ہے جیسے اُسے بغیر آواز کے کوئی مُکّہ لگا ہو۔ سامنے کچھ مدھم روشنیاں اُبھرنے لگیں، یہ’ توت کی روشنیاں تھیں۔ وہ گیارہ گھنٹے مسلسل سفر میں رہے ۔ بیچ میں آدھے آدھے گھنٹے کے چار وقفوں میں گھوڑے جئی (گھاس) ، دانہ اور چوکر کھا کر تازہ دم ہوئے۔ جب وہ قصبے میں داخل ہو کر ’ہوتیل دِیو کامرس کے سامنے رُکے تو (اُنہیں سفر کرتے ہوئے ) چودہ گھنٹے ہو چکے تھے ۔ جونہی دروازہ کھلا ، تلوار کی میان کو زمین پر پٹکنے سے پیدا ہونے والی جانی پہچانی آواز سُن کر تمام مسافروں کو ایک جھُر جھری سی آگئی۔ ساتھ ہی ایک جرمن نے چلا کر کوئی حکم دیا۔ اگرچہ بگھی رُک چُکی تھی لیکن کسی نے بھی نیچے اُترنے کی جرأت نہیں کی کہ مبادا بگھی سے باہر نکلنے پر اُسکا کام تمام کر دیا جائے ۔ کوچوان اپنی لالٹین ہاتھ میں لیے آگے بڑھا اور اچانک بگھی کے اندر آخر تک دو قطاروں میں بیٹھے ہوئے مسافروں کے چہرے روشن ہو گئے۔ اُنکے مُنہ کھلے کے کھلے تھے اور آنکھیں حیرت اور ڈر سے پھٹی ہوئی تھیں۔ کوچوان کے ایک طرف سرتا سر روشنی میں ایک لمبا تڑنگا، ازحد دُبلا پتلا، گورے رنگ اور سنہرے بالوں والا جرمن افسر کھڑا تھا۔ وہ اپنی چست یونیفارم میں ایک ایسی لڑکی کی طرح لگ رہا تھا کہ جس نے ( اپنی چھاتیوں اور کولہوں کو نمایاں کرنے کیلئے) کمر کے گرد’کوغ سے* 17-کو کس کر باندھا ہوا ہو۔ ترچھے انداز میں ہمواراور چمکیلی ٹوپی پہنے ہوئے وہ کسی انگریزی ہوٹل کا قاصد لگ رہا تھا۔ اُسکی لمبی بھوری مونچھیں اپنے کناروں پر بالکل ایک دھاگے کی طرح تھیں اور بمشکل دکھائی دیتی تھیں۔ اُسکے گالوں کی جلد پر ہونٹوں تک آتی ہوئی ایک گہری شکن تھی۔ ’’خواتین و حضرات کیا آپ نیچے اترنا پسند کریں گے؟‘‘ اُس نے ’الساس*18- کے فرانسیسی لہجے اور کرخت آواز میں مسافروں سے باہر نکلنے کی درخواست کی۔ ہر طرح سے تسلیم و رضا کی عادی ، دونو ں راہبہ بہنوں نے مقدس لڑکیوں کی (مثالی) فرمانبرداری کے ساتھ سب سے پہلے اس حُکم کی تعمیل کی پھر نواب صاحب اور اُنکی بیگم اترے ، اُنکے بعد کارخانے دار اور اُسکی بیوی ، پھر ’لوآزو‘ اپنی بھاری بھرکم ’’نصف بہتر ‘‘ کو اپنے آگے دھکیلتا ہوا نیچے اتر پڑا اور زمین پر پاؤں رکھتے ہی جرمن افسر کو سلام کیا۔ اُس نے خوش خلقی کی بجائے مصلحت کے تحت سلام کیا تھا لیکن اُس مختارِ کُل گھمنڈی (افسر) نے اُسکی طرف دیکھا لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ مومی گیند اور ’کوغ نیودے‘ حالانکہ دروازے کے قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے لیکن سب سے آخر میں اترے وہ دشمن کے سامنے سنجیدہ اور باوقار تھے۔ موٹی طوائف خود پر قابو پانے اور خاموش رہنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔ جمہوریت پسند لرزتے ہوئے ہاتھ سے اپنی سرخی مائل داڑھی کو کھینچے جا رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس طرح کے حالات میں ہر شخص اپنے ملک کی کچھ کچھ نمائندگی کرتا ہے ،وہ (دونوں) اپنی اونچی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ وہ دونوں اپنے ہمراہیوں کی چاپلوسی اور دَبوپن کو دیکھ کرسخت مشتعل تھے اور مومی گیند اپنی اشرافی پڑوسنوں کے مقابلے میں زیادہ بے خوف اور نڈر دکھائی دینے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔وہ راستہ روکے جانے کے خلاف اپنے رویے سے مزاحمت کی مثال قائم کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ سرائے کی وسیع طعام گاہ میں داخل ہو گئے اور جرمن افسر کو کمانڈر انچیف کا دستخط شدہ پروانہء راہداری دکھایا جس میں سب مسافروں کے نام، شناختی علامات اور پیشے درج تھے۔ وہ دیر تک اس فہرست میں دی گئی معلومات کا تقابلی جائزہ لیتا رہا پھر اُس نے دفعتاً کہا ، ’’ٹھیک ہے‘‘ اور وہاں سے غائب ہو گیا۔ سب نے سُکھ کا سانس لیا ۔ سبھی کو بھوک لگ رہی تھی سو کھانا لانے کیلئے کہا گیا۔ کھانا تیار ہونے میں آدھ گھنٹہ ضروری تھا۔ دو ملازمائیں ضروری کاموں میں مصروف نظر آ رہی تھیں سو وہ (اپنے اپنے) کمرے دیکھنے کیلئے ایک لمبی راہداری میں داخل ہو گئے جس کے آخر میں ایک شیشے والا دروازہ تھا جس کے اوپر ’’ جائے ضرورت‘‘ لکھا ہوا تھا۔ آخِر کار وہ کھانے کیلئے میز کے گرد بیٹھ ہی رہے تھے کہ سرائے کا مالک آگیا۔ وہ گھوڑوں کا سابقہ تاجر تھا، موٹا تازہ اور دمے کامریض۔ اُسکے نرخرے سے مسلسل خرخراہٹ اور گھگھیائی ہوئی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اُسکے باپ نے اسکا نام ’فولاں وی رکھ چھوڑا تھا۔ اُس نے پوچھا، ’’(آپ میں)مس’ ایلیزابیتھ غو سے‘ کون ہیں؟‘‘ مومی گیند نے ایک جھرجھری لی اور مُڑ کرکہا ، ’’میں ہوں‘‘۔ ’’مس جرمن افسر آپ سے فوراً کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ’’مجھ سے ؟‘‘ ’’ہاں اگر آپ ہی مس ایلیزابیتھ غو سے ہیں۔‘‘ وہ ذرا پریشان ہو گئی۔ اُس نے ایک لمحے کیلئے کچھ سوچا پھر قطعی لہجے میں کہنے لگی۔ ’’یہ ممکن ہے لیکن میں نہیں جاؤں گی۔‘‘ اُسکے گرد ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ جتنے منہ اُتنی باتیں ۔ ہر کوئی اس حکم کی وجہ جاننا چاہ رہا تھا۔ نواب صاحب اُسکے قریب سرک آئے ( اور کہا)۔ ’’مادام آپ غلطی پر ہیں کیونکہ آپکا انکار نہ صرف آپ کے لئے بلکہ آپ کے ساتھیوں کے لئے بھی کافی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ طاقت وروں کے سامنے کبھی اس طرح مزاحمت نہیں کرنی چاہئیے ۔ اس اقدام میں یقیناًکوئی خطرے والی بات نہیں ہے بلکہ بغیر کسی شک و شبہے کے یہ کوئی ضروری رسمی کاروائی دکھائی دیتی ہے۔‘‘ سب نے نواب صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی، اُس سے درخواست کی ، اُسے مجبور کیا اور نصیحت کی اور بالآخر اُسے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ وہ سب (انکار کی صورت میں) پیدا ہونے والی امکانی پیچیدگیوں سے ڈرے ہوئے تھے۔ اُس نے آخر کہا ، ’’یقیناًمیں (صرف ) آپ سب کیلئے ایسا کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ نواب صاحب کی بیگم نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ، ’’ہم سب آپ کے شکر گزار رہیں گے۔‘‘ وہ چلی گئی اور سب میز کے گرد بیٹھ کر اُس کا انتظار کرنے لگے۔ ہر کوئی مغموم تھا کہ کہیں اُس غصیلی اور تنک مزاج لڑکی کی جگہ اُسے نہ بُلا لیا جائے اور ہر کوئی ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کر رہاتھا کہ اگر اُسے اپنی باری پر طلب کیا گیا تو وہ کیا جواب دے گا۔ دس منٹ بعد جب وہ لوٹی تو اُسکی سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ غصے سے لال بھبھوکا ہو رہی تھی ۔ وہ بڑبڑائی ’’گھٹیا، ذلیل، کمینہ‘‘ ہر کسی کو جاننے کی جلدی تھی کہ کیا ہوا لیکن وہ کچھ نہ بولی اور جب نواب صاحب نے اصرار کیا تو اُس نے بڑے احترام اور رکھ رکھاؤ سے جواب دیا ۔ ’’نہیں ۔ آپ اس معاملے سے کوئی سروکار نہ رکھیں مجھے اس پر بات نہیں کرنی ۔‘‘ پھر وہ ایک بڑے طباق کے گرد بیٹھ گئے جس میں سے پھول گوبھی کی خوشبو اُٹھ رہی تھی۔ اس ناخوشگوار واقعے کے باوجود کھانا مزے دار تھا۔ سیب کی شراب بھی اچھی تھی۔ ’لوآزو‘ اور دونوں راہباؤں نے کفایت شعاری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا ، باقی لوگوں نے انگور کی شراب کا آرڈر دیا۔ ’کوغ ینودے‘ نے اپنے لئے بیئر *19- منگوائی۔ اُس کے بوتل کے کا رک کو کھولنے ، بیئر سے جھاگ بنانے ، گلاس میں اُنڈیلتے وقت جھاگ کا خیال رکھنے پھر گلاس کو لیمپ اور اپنی آنکھ کے درمیان لا کر اُس کے رنگ کی توصیف کرنے کا اپنا ہی انداز تھا۔ اُس کی لمبی داڑھی جو اُس کے پسندیدہ مشروب کا رنگ لیے ہوئے تھی، نازکی سے لہراتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اُس کی آنکھیں بھینگے پن کی حد تک متحرک تھیں تاکہ اُس کا جام نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے ۔ لگتا تھا کہ وہ صرف شراب نوشی کیلئے پیدا ہوا ہے اور وہ اس کام کو پوری طرح سر انجام دینے میں منہمک دکھائی دیتا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ دو چیزوں کی طرف اُس کا فطری میلان ہے، ایک بیئر اور دوسرا انقلاب ۔ یہ دونوں ’’عظیم الشان جذبات‘‘ اُس کی ساری زندگی پر محیط تھے۔ یقینی طور پر اُس کے لیے انقلاب کے بارے میں بیئر کے بغیر اور بیئر کے بارے میں انقلاب کے بغیر کچھ سوچنا محال تھا۔ موسیو اور مادام فولاں وی ‘ میز کے آخری کنارے پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔ صاحب تو پرانے ریلوے انجن کی طرح کھڑ کھڑ کیے جاتے تھے اور کھانے کے دوران بولنے میں اُن کے سینے کی پوری قوت صرف ہو رہی تھی لیکن اُن کی بیوی بلا تکان بولے جاتی تھی۔ جرمنوں کی آمد پر اُس کے کیا محسوسات تھے ، انہوں نے کیا کیا کیا اور کیا کچھ کہا ، اُس نے سب کچھ کہہ سنایا۔ وہ جرمنوں کو ، اول اس لیے لعن و طعن کر رہی تھی کہ اُس پر مالی بوجھ بڑھ گیا تھا، دوسرے یہ کہ اُس کے دوبیٹے فرانسیسی فوج میں تھے ۔ اُس کا رُوئے سخن بالخصوص نواب صاحب کی بیگم کی طرف تھا۔ وہ ایک اعلیٰ اور نفیس خاتون سے باتیں کرتے ہوئے خوشامد کی حد تک نیاز مندی کا اظہار کر رہی تھی۔ کچھ نرم و ملائم معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے اُس نے اپنی آواز کو ذرا کم کر لیا۔ اُس کا خاوند وقتاً فوقتاً اُسے روک ٹوک کرتا رہا ( حتیٰ کہ اُس نے یہ بھی کہا کہ )،‘‘ مادام فولاں وی ! اب تم چپ کر جاؤ تو بہتر ہوگا۔ ‘‘ لیکن اُس نے ذرا توجہ نہ دی اور بولتی رہی۔ ’’جی مادام ! یہ لوگ تو آلو کے ساتھ سُؤرکا گوشت اور سُؤرکے گوشت کے ساتھ آلو کے علاوہ کچھ نہیں کھا تے۔ یقین نہیں کرنا چاہیے کہ یہ لوگ صاف ستھرے ہوں گے اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ یہ اتنے گندے ہیں کہ ہر جگہ بول و براز کر دیتے ہیں۔ معاف کیجئے گا یہ ناگوار بات بھی آپ کو سُننا پڑی۔ یہ سب کبھی ادھر مُڑتے ہیں کبھی اُدھر مُڑتے ہیں، کاش یہ لوگ اپنے کھیتوں میں کام کرتے یا اپنے ملک کی شاہراؤں پر کام کرتے ! لیکن نہیں مادام یہ فوجی لوگ کسی کو فائدہ پہنچانے والے نہیں ہیں۔ غریب لوگوں کو چاہئیے کہ ان کو کھلائیں پلائیں تاکہ یہ صرف قتلِ عام کا ہنر سیکھ سکیں۔ یہ سچ ہے کہ میں ایک بوڑھی اور ان پڑھ عورت ہوں لیکن جب میں انہیں صبح سے لے کر شام تک ایڑھیاں پٹخ پٹخ کر نڈھال ہوتے دیکھتی ہوں تو اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ ایک طرف تو کئی لوگ کار آمد ایجادات کی دریافت میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ سب کچھ صرف اس لیے تباہ کردینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی چودھراہٹ قائم رکھ سکیں۔ کیا لوگوں کو قتل کرنا قابلِ نفرت اور مکروہ فعل نہیں ہے؟ چاہے وہ جرمن ہوں چاہے انگریز، پولش یا فرانسیسی ہوں؟ کوئی آپ کے ساتھ زیادتی کرے اور اگر آپ اس کا بدلہ لیں تو یہ بُرا ہے لوگ آپ کو بُرا بھلا کہیں گے لیکن اگر یہ ہمارے بچوں کو سولیوں پر چڑھائیں یا بندوقوں کا نشانہ بنائیں تو یہ اچھا کام ہے اور جو زیادہ قتل و غارت کریں، زیادہ تباہی پھیلائیں اُن کے لیے تمغے ، اعزازات ، انعام و اکرام ۔۔۔ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئے گی۔ کوغ ینودے نے با آوازِ بلند کہا۔ ’’جنگ ایک بربریت ہے اور اگر کوئی اپنے پُرامن ہمسائے پر حملہ کرے تو مادرِ وطن کا دفاع کرنا ایک مقدس فریضہ بن جاتا ہے۔ بوڑھی عورت نے سر جھکایا اور کہا۔ ’’ ہاں اپنا دفاع کرنا اور بات ہے لیکن کیا اُن تمام بادشاہوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتار دینا چاہئیے جو یہ سب کچھ محض اپنی تفریحِ طبع کیلئے کرتے ہیں؟‘‘ ’کوغ ینود ے‘ کی آنکھیں چمکنے لگیں، وہ دفعتاً بولا ، ’’شاباش میری محبِ وطن ۔۔۔ آفرین ،صد آفرین‘‘ موسیو ’کاغے لامادوں‘ کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بذاتِ خود مہم جُو فوجی حکمرانوں کے شیدائی تھے لیکن اس سیدھی سادھی دیہاتی عورت کی معقول تجویز نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اس ملک میں کتنے ہنر مند پڑے پڑے بیکار ہو رہے ہیں اور اگر ان سب کو (پیداواری) کاموں لگایا جائے تو دولت میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے، (افرادی قوت کی) اکثریت غیر پیداواری کاموں میں الجھی ہوتی ہے اور سب ان کو بڑی بڑ ی صنعتوں میں کھپانے کیلئے صدیاں درکار ہوں گی۔ ’لو آزو‘ اپنی جگہ چھوڑ کر سرائے کے مالک سے سرگوشیوں میں گپ شپ کرنے لگا۔ موٹے آدمی پر ہنسی، کھانسی اور بلغم کادورہ تسلسل سے جاری تھا۔ اُس کا حد سے بڑھا ہوا پیٹ اپنے ساتھی کے لطیفوں پر خوشی کے مارے اچھلنے لگتا تھا۔ اُس نے’ لو آزو‘ سے آئندہ موسمِ بہار کے لیے جب جرمن چلے جائیں گے، چھ پیپے * 20- کلارٹ کے خرید لیے ۔ کھانا بمشکل تمام ہوا۔ سب لوگ تھکن سے چُور تھے لہذا فوراً سو گئے لیکن ’لو آزو‘ کو کسی معاملے کی سُن گُن ہو چکی تھی۔ اُس نے اپنی بیوی کو بستر پر لٹایا اور خود دروازے پر کان لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ گاہے بگاہے تالے کے سوراخ میں آنکھ لگا کر ’’برآمدے کے اسرار‘‘ دریافت کرنے کی کوشش کرتا ۔ تقریباً ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ اُسے برآمدے میں کوئی سرسراہٹ سنائی دی۔ اُس نے فوراً سوراخ سے جھانکا اور دیکھا کہ وہ مومی گیند تھی۔ وہ کشمیر *21- کے نیلے لباس شب خوابی میں جس کے کناروں پر سفید لیس لگی ہوئی تھی اور بھی موٹی لگ رہی تھی۔ وہ اپنے ہاتھ میں ایک روشن موم بتی لیے برآمدے کے آخر میں غسل خانے کی طرف جا رہی تھی۔ اُس طرف ایک اور دروازہ ادھ کھلا تھا۔ کچھ منٹوں بعد جب وہ واپس آئی تو اُس کے پیچھے ’کوغ ینودے‘ گیلس *22-والا پتلون پہنے چل رہا تھا۔وہ آہستگی سے باتیں کر رہے تھے ، پھر وہ رُک گئے۔ مومی گیند اُس کو بزورِ قوت اپنے کمرے میں داخل ہونے سے روک رہی تھی۔’ لو آزو‘ کو بدقسمتی سے وہ الفاظ سنائی نہیں دے رہے تھے لیکن آخِر کار اُن دونوں کی آواز ذرا بلند ہوئی تو اُس کے پلّے کچھ پڑا ۔ ’کوغ نیودے‘ جو شیلے پن سے بالاصرار کہ رہا تھا؛ ’’ دیکھو ! تم بے وقوف نہ بنو۔ اس سے تمہیں کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ اُس نے ناراضگی کے عالم میں جواب دیا۔ ’’نہیں میرے پیارے! اس طرح کے حالات میں اس طرح کے معاملات نہیں کرتے اور پھر یہاں ۔۔۔۔۔۔ یہ تو بڑی شرم کی بات ہوگی۔‘‘ اُس کے پلّے کچھ نہ پڑا اور پھر کہنے لگا ’’کیوں؟‘‘ مومی گیند نے غصے سے بھری قدرے بلند آواز میں کہا، ’’کیوں؟ تم بالکل نہیں سمجھتے ؟جبکہ اس عمارت میں جرمن (بھی) موجود ہیں اور ممکن ہے کہ ساتھ والے کمرے میں ہی ہوں۔‘‘ وہ چپ ہو رہا ۔ وہ بازاری عورت دشمن کی موجودگی میں غیرتِ ملّی کے تحت اُسے اپنے قریب نہیں آنے دے رہی تھی ۔ اس بات نے اُس کے دل میں بھی قریب المرگ جذبہ حب الوطنی کو جگا دیا اوروہ اُسے صرف گلے لگا کر بھیڑیے کی طرح دبے پاؤں اُس کے دروازے کوچھوڑ کر چل دیا۔ ’لوآزو‘ نہایت جذباتی ہو رہا تھا۔ وہ تالے کے سوراخ سے پیچھے ہٹ گیا اُس نے کمرے کے فرش پر رقص کے انداز میں ایڑھیاں بجائیں۔ سر پرروما ل باندھا اور چادر اٹھائی جس کے نیچے اُس کی ہٹی کٹی بیوی بے سُدھ ہو کر سو رہی تھی۔ اُس نے اُسے بوسہ دے کر جگا یا اور منمنایا ، ’’میری جان! کیا تم مجھے سے محبت کرتی ہو؟‘‘ پھر ساری عمارت پر خاموشی چھا گئی لیکن فوراً ہی کسی نامعلوم سمت سے زوردار خراٹوں کی بھاری بھرکم آوازیں آنے لگیں۔ یہ آوازیں شاید کسی تہہ خانے یا اناج گھر سے آ رہی تھیں، ایک ہی سُر میں کھرج دار آوازیں کہ جیسے کسی کوئلے والے ریلوے انجن کا بوائلر پھنکار رہاہو۔ یہ موسیو فولاں دی تھے جوکہیں سو رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ سویرے آٹھ بجے روانہ ہو جائیں گے ۔ سب لوگ کھانے کے کمرے میں جمع ہو گئے لیکن خالی بگھی ، جس کی چھت برف سے ڈھکی ہوئی تھی، سرائے کے صحن کے عین درمیان یکہ و تنہا کھڑی تھی، گھوڑے بھی موجود نہیں تھے اور کوچوان کی بھی کوئی خبر نہیں تھی۔ اُنہوں نے اُسے اصطبل ، بھوسے کے گودام اور کوچوانوں کی کوٹھریوں میں تلاش کیا لیکن بے سُود۔ بالآخر تمام مردوں نے فیصلہ کیا کہ چل کر کہیں قصبے کی سیر کی جائے ، سو وہ نکل پڑے۔ وہ (قصبے کے مرکزی) چوک میں پہنچ گئے جس کی ایک انتہا پر گرجے کی عمارت تھی اور دو اطراف میں نیچی چھتوں والے گھر تھے جہاں اُنہوں نے کہیں کہیں جرمن فوجی دیکھے۔ پہلا ( فوجی ) جو انہوں نے دیکھا وہ آلو چھیل رہا تھا دوسرا ذرا فاصلے پر حجام کی دوکان کو دھو رہا تھا۔ ایک اور لمبی داڑھی والا جس کے گالوں کے بال آنکھوں تک اُگے ہوئے تھے۔ ایک بد تمیز بچے کو اپنے زانوؤں پر بٹھا کر چمکا ر رہا تھا جو مسلسل روئے چلے جا رہا تھا پر وہ اُسے بہلانے کی کوشش کر رہاتھا۔ موٹی موٹی کسان عورتیں جن کے شوہر ’’جنگی فوج ‘‘ میں شامل تھے ، اشاروں سے اپنے فاتحین کو مختلف کام سمجھا رہی تھیں جیسے لکڑیاں چیرنا ، سوپ بنانا، کافی کوٹنا (وغیرہ وغیرہ) ۔ ایک جرمن فوجی کسی بڈھی کھوسٹ عورت کے کپڑے بھی دھو رہا تھا جو بالکل کسی کام کی نہ رہی تھی۔ نواب صاحب (یہ سب کچھ دیکھ کر ) حیران ہو رہے تھے انہوں نے بڑے پادری کے گھر سے نکلنے والے گرجا کے ایک چوبدار *23-کو (روک کر) استفسار کیا تو (اُس) کلیسا کے بوڑھے چوہے نے جواب دیا ۔ ’’اوہ ! یہ لوگ تو بالکل تنگ نہیں کرتے کچھ لوگوں کے مطابق یہ تو جرمن ہی نہیں لگتے بلکہ کہیں دور سے آئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ تو پتہ نہیں کہاں سے آئے ہیں لیکن یہ بھی اپنے پیچھے بیوی بچے چھوڑ کر آئے ہیں اور انہیں اس جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں مجھے یقین ہے کہ اِن کی بیویاں بھی ان کی جُدائی میں روتی ہوں گی۔ ہماری طرح اُن کے گھروں میں بھی اداسی اور بدحالی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہوں گے۔ یہاں لوگ ابھی تک کسی بڑی بدقسمتی سے دوچار نہیں ہوئے کیونکہ اِن لوگوں نے ابھی تک کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اوروہ یہاں ایسے ہی کام کر رہے ہیں جیسے وہ اپنے گھروں میں کام کر تے ہیں۔ دیکھئے جنابِ من، غریبوں کو توایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئیے ۔۔۔۔۔۔ یہ بڑے اور امیر لوگ ہی جنگ کرتے ہیں۔‘‘ ’کوغ ینودے‘ فاتحین اورمفتوحین کے درمیان اِن گہرے دوستانہ مراسم سے چڑ گیا اور اُس نے واپس سرائے جا کر بند ہونے کو ترجیح دی ۔ ’لو آزو‘ نے تمسخرانہ انداز میں کہا کہ اِن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔’ موسیو کاغے لامادوں‘ نے سنجیدگی سے کہا، ’’یہ لوگ بحالی کے کام اور مرمت وغیرہ کر رہے ہیں۔‘‘ لیکن کوچوان کی صورت کہیں نظر نہ آئی ۔ بالآخر وہ ایک قہوہ خانے میں جرمن افسر کے اردلی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھا ہوا دکھائی پڑا ، نواب صاحب نے سختی سے پوچھا، ’’کیا تمہیں صبح آٹھ بجے روانگی کے لیے تیار ہونے کا حکم نہیں ملا تھا؟ ’’ لیکن جنا ب مجھے تو ایک دوسرا حکم ملا تھا۔‘‘ ’’کیا؟‘‘ ’’بالکل روانگی کیلئے تیار نہیں ہونا۔‘‘ ’’یہ حکم تمہیں کس نے دیا تھا؟‘‘ ’’جرمن افسر نے جناب!‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’مجھے کچھ پتہ نہیں ۔ آپ جائیں اور اُنہی سے پوچھ لیں۔ مجھے تو بس بگھی تیار کرنے سے روکا گیا اور میں رُک گیا۔‘‘ ’’کیا ایسا کرنے کا خود جرمن افسر نے تمہیں کہا تھا؟‘‘ ’’نہیں جناب سرائے کے مالک نے اُن کی ایماء پر مجھے ایسا کرنے کو کہا ۔‘‘ ’’کب؟‘‘ ’’کل رات میرے سونے سے پہلے‘‘ تینوں مرد بے چین ہو کر واپس (سرائے ) لوٹ آئے۔ اُنہوں نے موسیوفولآں وی کا پوچھا تو نوکرانی نے بتایا کہ موصوف اپنے دمے کی وجہ سے صبح دس بجے سے پہلے نہیں جاگتے اور اُنہوں نے سختی سے تاکید کر رکھی ہے کہ صرف آگ لگنے کی صورت میں اُنہیں جلد جگایا جاسکتا ہے ورنہ نہیں۔ وہ جرمن افسر سے ملنا چاہتے تھے لیکن یہ بالکل ہی ناممکن تھا حالانکہ وہ اُسی سرائے میں رہ رہا تھا۔ صرف موسیو فولاں وی کو سول معاملات میں اُس سے بات چیت کا اختیار حاصل تھا۔ ناچار وہ انتظار کرنے لگے۔ خواتین انپے کمروں میں چلی گئیں اور ( وقت گزاری کیلئے ) بے مصرف کاموں میں لگ گئیں۔ کوغ ینودے باورچی خانے کی اونچی چمنی کے نیچے بیٹھ گیا ۔ اُس نے ایک چھوٹی تپائی پر بیئر کی ایک بوتل رکھی اور پائپ نکال کر سلگا لیا ۔ جمہوریت پسند حلقوں میں اس پائپ کی قدر وقیمت کوغ ینودے کی اپنی اہمیت کے برابر تھی اور اس پائپ کا کوغ ینودے کے کام آنا ’’ملک و قوم کی خدمت‘‘ کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایشیائے کوچک کی ایک خاص مٹی *24-کی تہہ والا شاندار اورخم دار پائپ تھا اور اُتنا ہی کالا تھا کہ جتنے کالے اسکے مالک کے دانت تھے لیکن یہ خوشبو دار اور چمک دار تھا اور اُس کے ہاتھ میں سجتا تھا بلکہ اُس کی شخصیت کو مکمل کرتا تھا ۔ وہ بالکل ساکت بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کبھی آتش دان کے شعلوں اور کبھی بیئر کے گلاس کی بالائی سطح پر جھاگ کو مستقل نظریں جمائے دیکھتا رہتا اور ہر مرتبہ بیئر کا گھونٹ بھرنے کے بعد بڑے اطمینان سے اپنی لمبی پتلی انگلیاں انپے چکنے لمبے بالوں میں پھیرتا اور بیئرکی جھاگ جو مونچھوں سے لگ جاتی اُسے اپنی زبان سے صاف کرلیتا۔ ’لوآزو‘ اپنی ٹانگوں کو سیدھا کرنے کے بہانے قصبے میں اپنی شراب فروخت کرنے کی مہم پر نکل گیا۔ نواب صاحب اور کارخانے دار سیاست پر گفتگو کرنے لگے ۔ وہ فرانس کے مستقبل کی پیش بینی کر رہے تھے ۔ ایک (ضلع ) ’اوغ لیاں کی طرف امید لگائے بیٹھا تھا دوسرا (ضلع) ’گیُس کیلں کی طرف دیکھ رہاتھا شاید کوئی ’جون آف آرک*25- یا کوئی دوسرا ’نپولین اوّل آئے (اور مُلک کی تقدیر بدل کر رکھ دے) کاش ولی عہد اتنا کم عمر نہ ہوتا ! ’کوغ نیودے‘ اُن کی باتیں سُن کر ایسے مسکرا رہا تھا کہ جیسے مستقبل کی حقیقیت اُس کے سامنے کھلی ہوئی ہو۔ اُس کے پائپ کی مہکار سارے کمرۂ طعام میں پھیلی ہوئی تھی۔ جب گھڑیال نے دس بجائے موسیوفولاں وی (اپنے کمرے سے ) برآمد ہوئے۔ سب نے اُن سے باری باری پوچھا کہ معاملہ کیا ہے؟ انہوں نے دو تین مرتبہ یہی جُملے دوہرائے ، ’’ جرمن افسر نے مجھے یہی کہا ہے کہ موسیو فولاں وی آپ اِس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ لوگ کل روانہ نہ ہو پائیں۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ لوگ میرے حُکم کے بغیر یہاں سے کُوچ کریں۔ آپ نے سُن لیا؟ بس یہی کافی ہے۔‘‘ اب وہ جرمن افسر سے ملنا چاہتے تھے۔ نواب صاحب نے اُسے اپنا تعارفی کارڈ بجھوایا جس پر موسیو ’کاغے لامادوں‘ نے اپنا نام مع خطابات لکھا۔ افسر نے جواب میں کہلوایا کہ وہ دوپہر کو کھانے کے بعد تقریباً ایک بجے اِن دونوں حضرات سے مل سکتا ہے ۔ تمام خواتین اپنے کمروں سے دوبارہ کمرۂ طعام میں اُتر آئیں اور پریشانی کے باوجود کچھ نہ کچھ کھاپی لیا۔ مومی گیند بیمار بیمارسی اور بے حد پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ انہوں نے (کھانے کے بعد) کافی ختم کی ہی تھی کہ اردلی اِن دونوں صاحبان کو لینے کے لیے آگیا۔ ’لو آزو‘ان دونوں حضرات کے ساتھ ہو لیا اور ’کوغ نیودے‘ کو بھی اس وفد میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس وفد کے وقار میں اضافہ ہو سکے لیکن اُس نے بڑی بے خوفی سے اعلان کیا کہ وہ ان جرمنوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا اور وہ اُسی چمنی کے پاس بیٹھا رہا اور ایک بیئر کی بوتل منگوائی ۔ تینوں افراد سرائے کے سب سے بہترین کمرے میں داخل ہو گئے جہاں وہ افسر اُن سے ملا وہ ایک آرام کرسی پر دراز تھا۔ اُس نے اپنے پاؤں آتش دان کی چمنی پر رکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک لمبا چینی کا بنا ہوا پائپ پی رہا تھا اُس نے بھڑکیلے رنگ کا لباسِ شب خوابی پہن رکھا تھا جو یقیناًکسی بد ذوق نودولتیے کے گھر سے لوٹا گیا تھا۔ وہ (اُن کے استقبال کے لیے ) نہیں اُٹھا، نہ اُن کو سلام کیا اور نہ اُن کی طرف دیکھا ۔ وہ فاتح فوجیوں کی فطری کمینگی اورشُہدے پن کا زبردست نمونہ لگ رہا تھا۔ چند ثانیوں بعد وہ بالآخر گویا ہوا۔ ’’تم لوگ کیا چاہتے ہو؟‘‘ نواب صاحب نے کہا ، ’’ جناب ہم یہاں سے جانے کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ ’’ نہیں‘‘ ’’کیا میں اس انکار کی وجہ جاننے کی جرأت کرسکتا ہوں؟‘‘ ’’میں نہیں چاہتا کہ تم یہاں سے جاؤ ۔ ‘‘ ’’ میں نہایت ادب کے ساتھ آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ آپ کے کمانڈر انچیف نے ہمیں دی ایپ*26- جانے کے لیے پروانۂ راہداری عطا کیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ ہم نے ایسی کوئی حرکت کی ہے کہ جس کی وجہ سے آپ ہمارے ساتھ درشتی سے پیش آئیں۔ ‘‘ ’’جب میں نے کہہ دیا کہ تم نہیں جا سکتے ۔۔۔اور بس اب تم سیڑھیاں اُتر جاؤ ‘‘ وہ تینوں جھُک کر اُلٹے پاؤں مُڑ آئے۔ سہ پہر پثرمردگی کی حالت میں گزری ۔ اُس جرمن کی متلون المزاجی کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ طرح طرح کے خیالات ذہنوں کو پریشان کر رہے تھے۔ ہر کوئی کمرۂ طعام میں مسلسل بحث کیے جا رہا تھا اور اندیشہ ہائے دور ودراز کو تصور میں رہا تھا۔ وہ اُنہیں بطور یرغمال رکھنا چاہ رہا تھا؟ لیکن کس لیے ؟ کیا انہیں قیدی بنایا جا رہا ہے؟ یا شاید اُن سے بھاری تاوان طلب کیا جائے ۔ اس خیال سے اُن میں ایک کھلبلی مچ گئی۔ جو زیادہ امیر تھے وہ زیادہ ڈ ر رہے تھے۔ پہلے ہی اُن کی جان پر بنی ہوئی تھی اس پر مستزادیہ کہ سونے سے بھری ہوئی تھیلیاں بھی اُس بد تمیز فوجی کے ہاتھوں خالی کرنی پڑ رہی تھی۔ اُن کے ذہن مصروف تھے کہ وہ کون سا قابلِ قبول جھوٹ تراشیں کہ اپنی امارت چھپا سکیں اور باکل غریب نظر آئیں۔ لو آزونے اپنی گھڑی اتار کراپنی جیب میں رکھ لی۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور اُن کے خدشات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ لیمپ روشن کر دیا گیا تھا لیکن ابھی کھانے میں دو گھنٹے باقی تھے۔ مادام’ لو آزو‘ نے تجویز دی کہ ’ تغاں تے آں*27-کی ایک بازی ہو جائے کہ اِس سے ذرا دل بہل جائے گا۔ ’کوغ نیودے‘ نے بھی ازراہِ شائستگی اپنا پائپ بجھا دیا اور اِس (کھیل) میں حصہ لیا۔ نواب صاحب نے پتے پھینٹے اور تقسیم کیے ۔مومی گیند سب سے پہلے جیت گئی۔ جلد ہی کھیل میں دلچسپی نے اُس خوف کوزائل کر دیا جو(اُس کے لیے) سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔ ’کوغ نیودے‘ کو اندازہ ہو گیا کہ لو آزو کھیل میں بے ایمانی کر رہا ہے۔ وہ کھانے کی میز پر بیٹھے ہی تھے کہ موسیو فولاں وی آگئے اور اپنی خرخراتی ہوئی آواز میں اعلان کیا کہ جرمن افسر نے پوچھا ہے کہ مادام’ ایلزابیتھ غُو سے‘ نے اپنی رائے تبدیل کر لی ہے کہ نہیں؟ مومی گیند کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ اُس کا رنگ پیلا پڑ گیا پھر اچانک غصے میں لال سُرخ ہو گئی۔ اُسے اتنا شدید غصہ تھا کہ اُس سے بولا تک نہیں جا رہا تھا۔ بالآخر وہ پھٹ پڑی، ’’ آپ اُس گھٹیا ، ذلیل اور مُردار جرمن سے کہہ دیں کہ میری طرف سے صاف انکار ہے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ موٹا، سرائے کا مالک چلا گیا ۔ سب نے مومی گیند کو گھیر لیا اور کہنے لگے کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھائے کہ اُس جرمن نے مومی گیند سے کیا مطالبہ کیا تھا پہلے تو وہ مزاحمت کرتی رہی لیکن پھر اُس پر غیظ و غضب غالب آگیا، ’’وہ کیا چاہتا ہے۔ ۔۔۔ وہ کیا چاہتا ہے ۔۔۔ وہ میرے ساتھ سونا چاہتا ہے۔‘‘ وہ اتنے غصے میں تھی کہ کسی نے اُس کی عامیانہ زبان کا بُرا نہیں منایا۔ ’کوغ نیودے‘ نے اپنا بیئر کا گلاس میز پر زور سے پٹخ کر توڑ دیا۔ اُس بدمعاش کے خلاف یہ لعن طعن ایک احتجاج تھا، ایک غصے کی لہر تھی۔ سب اُس کے خلاف مزاحمت پر متحد تھے کہ جیسے اُس نے ہر ایک سے اِس ’’قربانی‘‘ کا مطالبہ کیا ہو۔ نواب صاحب نے نفرت آمیز لہجے میں کہا، ’’یہ فوجی قدیم (وحشی ) بربر قبائل کی طرح کا سلوک کر رہے ہیں۔ ‘‘ خواتین نے بالخصوص مومی گیند کے ساتھ پُرجوش اظہارِ ہمدردی کیا۔ دونوں اچھی بہنیں جو صرف کھانے کے وقت سامنے آتی تھیں سر جھکائے بالکل خاموش بیٹھی تھی۔ جب اُنکا ابتدائی غصہ فرو ہوا تو انہوں نے کچھ کھانے پینے پر دھیان دیا۔ (اب) وہ باتیں کم کر رہے تھے اور سوچ زیادہ رہے تھے۔ خواتین جلد ہی ( اپنے کمروں میں) چلی گئیں۔ مردوں نے تمباکو پیتے ہوئے’’ایکاغ تے‘‘28- کی بازی جمائی جس میں انہوں نے چالاکی سے موسیو فولاں وی کو بھی مدعو کر لیا تاکہ اُن سے پوچھا جائے کہ اِس جرمن افسر کو کس طرح رام کیا جاسکتا ہے لیکن اُس کی توجہ صرف پتوں پر تھی ۔ وہ نہ کچھ سُن رہا تھا اور نہ ہی کو ئی جواب دے رہا تھا بلکہ یہی تکرار کیے جارہا تھا کہ ، ’’ جناب اپنے کھیل پر توجہ دیں‘‘ وہ اس بازی میں اس قدر منہمک تھا کہ بلغم تھوکنا بھی بھول گیا تھا جس کی وجہ سے اُس کے سینے میں اختناق کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ بھار ی اور کٹیلی آوازیں اُس کے سینے سے برآمد ہورہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کچھ اصیل مُرغوں کے پٹھے بانگ دینا سیکھ رہے ہوں۔ حتیٰ کہ اُس کی بیوی جو نیند سے گری پڑتی تھی، جب اُسے تلاش کرتی ہوئی آئی تو اُس نے کمرے میں جانے سے انکار کر دیا۔ پھر وہ اکیلی ہی سونے کیلئے چلی گئی کیونکہ وہ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اٹھنے والوں میں سے تھی اور یہ دن چڑھے تک سونے والوں میں سے تھا ہمیشہ دوستوں کے ساتھ رات گئے تک جاگنے کیلئے تیار ۔ اُس نے اپنی بیوی سے چلاّ کر کہا۔ ’’ میرے لیے پھینٹے ہوئے انڈے آتشدان کے سامنے رکھ دینا، ‘‘ اور پھر تاش کھیلنے میں مصروف ہوگیا۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ اُس سے کچھ اُگلوایا نہیں جا سکتا تو انہوں نے کہا کہ اب سو نے کا وقت ہو چکا ہے ۔ اگلے دن وہ کسی غیر واضح امید کے ساتھ نور کے تڑکے ہی اُٹھ گئے۔ وہاں سے چلے جانے کی خواہش شدید تر ہو چلی تھی۔اُس چھوٹی سی سرائے میں ایک اور دن گزارنا بھیانک لگ رہا تھا۔ افسوس ! گھوڑے ابھی اصطبل میں ہی تھے۔ اور کوچوان کی کوئی خبر نہ تھی۔ وہ بلا مقصد بگھی کے گرد چکر لگاتے رہے ۔ ناشتہ ایک اداسی میں کیا گیا ۔ گزشتہ رات کی سوچ بچار کے بعد مومی گیند کے بارے میں ( اُن کے رویے میں ) ایک سرد مہری سے آ گئی تھی۔ اب وہ شاید اُس لڑکی سے یہ چاہتے تھے کہ وہ رات کی رات میں جرمن افسر کے پاس خموشی سے چلی جائے تاکہ صبح اٹھنے پر اپنے ساتھیوں کے لیے ایک خوشگوار حیرت کا سبب بن سکے۔ بھلا اس سے آسان راستہ اور کیا تھا؟ اور یہ کس کو سُجھائی دیتا ؟ وہ جرمن افسر کو یہ کہہ کر سُر خ رُو ہو سکتی تھی کہ میں یہ سب کچھ اپنے ساتھیوں کی پریشانی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کر رہی ہوں اور اُس کے لیے یہ کون سی بڑی بات تھی لیکن ان ’’خیالات‘‘ کا ( واضح الفاظ میں ) اظہار کسی نے نہیں کیا۔ سہ پہر میں جب وہ لوگ وہاں پڑے پڑے سڑنے سے گھبرا گئے تو نواب صاحب نے قصبے کے ارد گرد سیر کرنے کی تجویز دی۔ سب لوگوں نے اپنے آپ کو ( گرم کپڑوں) میں لپیٹ لپاٹ لیا اور یہ چھوٹا سا قافلہ چل پڑا ، سوائے ’کوغ نیودے‘ کے جس نے آتش دان کے قریب بیٹھے رہنے کو ترجیح دی اور دونوں راہباؤں کے جو سارا دن یا تو گرجے میں یا پھر پادری کے گھر میں گزارتیں تھیں۔ سردی کی شدت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی اور ( ٹھنڈی ) ہوا ناک اور کانوں کو کاٹتی ہوئی محسوس ہو تی تھی۔ پاؤں اس قدر دُکھتے تھے کہ قدم اٹھانا مصیبت لگ رہا تھا۔ جیسے ہی قصبے کے ارد گرد کے مناظر دکھائی پڑے جو بے اندازہ برف کے نیچے بے حد رنجیدہ اور مغموم لگتے تھے تو انہوں نے فوراً واپسی قصد کرلیا۔ اُن کی روح منجمند ہو رہی تھی اور دل بھنچا ہوا تھا۔ چاروں خواتین آگے آگے چل رہی تھیں اور تینوں مرد اُن کے پیچھے ذرا فاصلے پر تھے؛ لو آزو جسے صورتِ حال کا ادراک تھا، یکدم بولا، ’’اِس ’’عفت مآب‘‘ کا ہمیں کتنی دیر تک یہاں رکھنے کا ارادہ ہے؟‘‘ ہمیشہ سے خوش اخلاق نواب صاحب نے جواب دیا کہ کسی خاتون سے اس قدر تکلیف دہ قربانی بزور نہیں لی جاسکتی ، اُسے اس بات پر از خود آمادہ ہونا چاہئیے۔ موسیو’کاغے لامادوں‘نے اپنی رائے دیتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی کہ اگر فرانسیسیوں نے ’دی ایپ کی طرف سے جوابی حملہ کیا ، جیسا کہ ہوائی اُڑی ہوئی تھی ، تو (فوجوں کا) تصادم سوائے ’توت‘ کے اور کہیں ممکن نہیں تھا۔ اس بات نے دوسروں دو مردوں کو بھی فکر مند کردیا۔ ’’کیوں نہ ہم یہاں سے پیدل ہی فرار ہو جائیں؟‘‘ نواب صاحب نے کاندھے اُچکائے۔’’ تم ایسا سوچ رہے ہو؟ اس برف میں؟ عورتوں کے ساتھ؟ اور پھر فوراً ہمارا تعاقب کیا جائے گا اور وہ دس منٹوں میں ہمیں آلیں گے، پھر ہم قیدی بن کر ان فوجیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔‘‘ یہی حقیقت تھی سو چپ ہو رہے ۔ خواتین کپڑوں (جوتوں) کی باتیں کر رہی تھیں لیکن ایک کھنچاؤ اُن میں دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک گلی کے آخر میں وہ جرمن افسر دکھائی پڑا۔ تاحدِ نظر برف کے تناظر میں ، لمبے قد کے باوصف (چُست) وردی میں اُسکی (پتلی ) کمر بھڑ کے مشابہ لگ رہی تھی۔ وہ اپنے گھٹنے پھیلا کر چل رہا تھا۔ یہ چال فوجیوں کے ساتھ مخصوص ہے جس کے تئیں بصد اہتمام وہ اپنی اچھی طرح سے پالش کیے ہوئے جوتوں کو ( رگڑ کھا کر) داغ لگنے سے بچاتے ہیں۔ وہ خواتین کے قریب سے گزرتے ہوئے قدرے جھُکا اورمردوں پر ایک نفرت کی نگاہ ڈالی، انہوں نے بھی اپنی عزتِ نفس کا پاس رکھتے ہوئے سر سے ہیٹ نہ اتارا اور صرف ’لوآزو‘ نے اشارتاً اپنی ٹوپی کو ہاتھ لگا کر تعظیم دی۔ مومی گیند کانوں تک سُرخ ہو گئی اور تینوں شادی شدہ خواتین نے خود کو اُس لڑکی کے ہمراہ دیکھے جانے پر شدید تذلیل محسوس کی لیکن اُس فوجی کا سرِ راہ یوں ملنا اور ایک بانکپن سے تعظیم دینا ( انہیں اچھا لگا)۔ پھر وہ اُس کے بارے میں باتیں کرنے لگیں۔ اُس کی چال ڈھال، چہرہ مُہرہ (زیرِ بحث آ ئے) مادام’کاغے لامادوں‘ بہت سے فوجی افسروں کو جانتی تھی اور اُن کے بارے میں ایک ’’ماہرانہ‘‘ رائے رکھتی تھی۔ اُسے تو اُس میں کوئی بُرائی نظر نہ آئی بلکہ اُسے اچھا خاصا معقول قرار دیا اور اُسے افسوس ہو رہا تھا کہ وہ فرانسیسی کیوں نہیں ہے کیونکہ وہ خوبصورت رسالہ سوار کسی بھی عورت کو (با آسانی) رجھا سکتا تھا۔ جب وہ سرائے لوٹ کر آئے تو اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہاتھا کہ اب کیا کریں حتیٰ کہ معمولی باتوں پر بھی کٹیلے جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔ رات کا کھانا خموشی سے جلد ہی کھالیا گیا اور کوئی وقت کو دھکا دینے کی امید میں سونے کے لیے چلا گیا ۔ صبح کے وقت وہ تھکے ہوئے چہروں اور ملول دل کے ساتھ اپنے کمروں سے نیچے اُترے ۔خواتین مومی گیند سے بمشکل ہی کوئی بات کر رہی تھیں۔ گرجے میں بپتسمہ *29- کا مخصوص گھنٹہ بجا۔ مومی گیند کا ایک بچہ’ ایوتو‘*30- کے کسانوں کے ہاں پرورش پا رہا تھا جسے وہ سال بھر میں ایک آدھ مرتبہ ہی دیکھ پاتی اُسے کبھی اُس کا خیال ہی نہ آیا لیکن کسی بچے کو بپتسمہ دینے کے تصور سے ہی اُس کے دل میں ایک فوری اور شدید ملائمت بھر گئی اور اُس نے ( گرجا گھر میں جاری) تقریب میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جونہی وہ چلی گئی تو سب عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ اور کرسیاں کھینچ کر ایک دوسرے کے قریب ہو گئیں کیونکہ وہ محسوس کر رہی تھیں کہ اُنہیں بالآخر کوئی فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔ لو آزو نے ایک تجویز پیش کی ۔ اُس کا خیال تھا کہ جرمن افسر کو کہا جائے کہ وہ صرف مومی گیند کو رکھ لے اور باقی سب لوگوں کو جانے دے۔ موسیو فولاں وی کو اس مقصد برآری کے لئے بھیجا گیا لیکن وہ فوراً ہی لوٹ آیا۔ وہ جرمن جو انسانی فطرت کو اچھی طرح جانتا تھا ، اُس نے اُسے دروازے سے ہی کھڑے کھڑے رخصت کر دیا اور اُن پر واضح کر دیا کہ وہ سب کو وہیں روکے رکھنا چاہتا ہے تاکہ آنکہ اُس کی خواہش پوری نہیں ہو جاتی۔ پھر تو ’مادام لو آزو‘ کا عامیانہ پن ابھر ایٓا اوروہ پھٹ پڑی، ’’ہم کبھی نہیں چاہیں گی کہ یہاں پڑے پڑے بوڑھی ہو کر مر جائیں۔ اس سؤرنی کا تو کام ہی تمام مردوں کے ساتھ سونا ہے ۔ اُسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی ایک کو یا دوسرے کو انکار کرے۔ میں آپ کو بتاتی ہوں کہ یہ’ غوآں‘ سے سب کچھ تو سمیٹ لائی ہے حتیٰ کہ (اپنے یار) کو چوان کو بھی لے آئی ہے۔ ہاں مادام! میئر کا کوچوان، میں اُسے اچھی طرح جانتی ہوں وہ ہماری ہی دوکان سے شراب خریدتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور آج ہمیں جب اس پریشانی سے نکالنے کا کام آپڑا ہے تو یہ بازاری رنڈی نخرے کر رہی ہے۔ میری نظر میں تو یہ جرمن افسر بہت اچھا کر رہا ہے کیونکہ شاید وہ بہت دنوں سے ترسا ہوا ہے اور وہ بلا شبہ ہم تینوں عورتوں میں سے بھی کسی کو چُن سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن نہیں، وہ ہمیں چھوڑ کر اُسی ایک پر راضی ہوگیا۔ وہ شادی شدہ عورتوں کی عزت کرتا ہے۔ ذرا سوچیے تو ۔۔۔ وہ مالک ہے۔ اُس نے تو صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ ’’ میری خواہش ہے‘‘ ورنہ وہ ہمیں اپنے فوجیوں کے ذریعے بزورِ قوت بھی حاصل کرسکتا ہے‘‘ دونوں خواتین کو ہلکی سی جھرجھری آگئی۔ حسین مادام کاغے لامادوں کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور رنگ قدرے پیلا پڑ گیا تھا جیسے ( درحقیقت) جرمن افسر نے اُسے زبردستی پکڑ لیا ہو۔ مرد جو علیحدہ بحث کیے جا رہے تھے وہ بھی اُن کے قریب آگئے۔ ’لو آزو‘ غصے سے بھر ا ہوا تھا اورچاہتا تھا کہ ’’اُس بیچاری‘‘ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دشمن کے سامنے پھینک دے لیکن نواب صاحب ، جو سفیروں کی تین نسلوں کے وارث تھے اور ایک (ماہر) سفارت کار کی خصوصیات رکھتے تھے، دانائی اور حیلے سے کام لینے کے قائل تھے ، انہوں نے کہا کہ نہیں اُسے خود فیصلہ کرنے دو۔ پھر وہ کسی سازش کا تانا بانا بننے لگ گئے۔ خواتین ایک دوسرے کے اور نزدیک آگئیں آوازوں کا سُر مدھم پڑ گیا اور عام بحث شروع ہو گئی۔ ہر کوئی اپنی رائے دے رہا تھا۔ خواتین تو خصوصی طور پر کرخت اور زیادہ سخت باتوں کے اظہار کے لیے لب و لہجے کی ملائمت اور زبان و بیان کی نزاکتوں کا سہارا لے رہی تھیں۔ زبان کے استعمال میں اتنی زیادہ احتیاط کو مدِ نظر رکھا گیا کہ کوئی اجنبی (موضوعِ گفتگو کے بارے میں) کچھ نہ جان سکتا تھا۔ لیکن شرم و حیا کا وہ باریک پردہ جو دنیا کی ہر عورت کی ڈھال ہوتا ہے ، محض سطحی ثابت ہوا۔ وہ اس مکارانہ امہم جُوئی سے بُری طرح اور دل کی گہرائیوں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور محبت کے اس سوانگ کو کسی لالچی ماہر باورچی کی سی نفس پرستی کے ساتھ دل و جان سے محسوس کر رہی تھیں جو کسی اور کا کھانا بنا رہا ہو۔ (اُن میں) خوش دلی خود بخود عود کر آئی اور آخر میں انہیں ساری کہانی مضحکہ خیز لگی۔ نواب صاحب کو چٹکلے ، لطیفے ذرا ’’خطرناک‘‘ لگے لیکن اِس خوش اسلوبی سے بیان ہوئے کہ وہ مسکرانے لگے ۔ ’لو آزو‘ نے اپنی باری پر کافی بھدے انداز میں فحش گوئی کی لیکن کسی کی ذات کو نشانہ نہیں بنایا لیکن اُس کی بیوی کی (قدرے) درشت رائے سے سب نے اتفاق کیا کہ اُس عورت کا یہی کام ہے اور وہ اس سے کیونکر انکار کرے گی۔ مہربان فطرت مادام ’کاغے لامادوں‘ سوچ رہی تھیں کہ شاید وہ انکار ہی کردے۔ وہ دیر تک منصوبہ بندی کرتے رہے جیسے کسی قلعے کا محاصرہ کرنے جارہے ہوں۔ ہر کسی نے اپنا کردار جو اُسے ادا کرنا تھا سمجھ لیا۔ وہ دلائل جن پر زور دیا جانا تھا (یاد کر لئے ) اور وہ چالیں جو کام میں لائی جانی تھیں از بر کرلیں ۔انہوں نے تمام حکمتِ عملی ، اُسے اچانک جالینے اور حملوں کی تفصیلات طے کر لیں تاکہ اپنے اس ’’جیتے جاگتے قلعہ نما ملجا و ماوٰی‘‘ *31- کو دشمن کے استقبال کیلئے آمادہ کر سکیں۔ ’کوغ ینودے‘ بہر حال اس معاملے سے الگ تھلگ ہو کے ایک طرف بیٹھا رہا۔ وہ سب اس معاملے میں اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ انہیں مومی گیند کی واپسی کی خبر تک نہ ہوئی۔ نواب صاحب نے آہستگی سے ’’ ہش‘‘ کہا سب کی نظریں ( اُسکی طرف ) اُٹھ گئیں وہ وہاں موجود تھی۔ سب یکدم چپ ہو گئے، ایک خاص ہچکچاہٹ نے اُنہیں اُس کے بارے میں بات کرنے سے روک دیا۔ نواب صاحب کی بیگم نے ، جو باقی خواتین کے مقابلے میں مجلسی دورُخی کے باوجود سب سے زیادہ نرم خُو تھیں، اُس سے پوچھا کہ بپتسمہ کی رسم تمہیں کیسی لگی؟۔ موٹی لڑکی نے ایک سرخوشی کے عالم میں تمام تفصیلات بتائیں کہ کون کون آیاتھا وہ کیسے دکھائی دے رہے تھے، گرجا گھر اندر سے کیسا تھا وغیرہ وغیرہ اُس نے مزید کہا کہ یہ دعا مانگنے کیلئے اچھی جگہ ہے۔ دوپہر کے کھانے تک تمام خواتین اُس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرتی رہیں تاکہ اُس کا دل جیت سکیں اور اُس کا اعتماد حاصل کر سکیں اور وہ فرماں برداری سے اُن کے مشوروں پر کان دھرے۔ جونہی وہ کھانے کی میز پر آئے، انہوں نے اپنی پیش قدمی شروع کر دی ۔ سب سے پہلے ایثار و قربانی کے موضوع پر عمومی گفتگو شروع ہوئی۔ انہوں نے قدیم واقعات بطور مثال پیش کیے۔ ’جیودت اور ہولوفرن‘*32- کا قصہ سنایا گیا اور پھر بغیر کس وجہ کے ’لُکریسش کے ساتھ سیکسٹس*33- کی کہانی بیان کی گئی۔ قلو پطرہ *34- کے بھی افسانے سنائے گئے کہ اُس نے کس طرح دشمن کے تمام جرنیلوں کیساتھ شب بسری کی اور اپنے جسم کی ’’ قربانی ‘‘ دے کر اپنی غلام بنائی گئی قوم کی تکالیف و مصائب کو کم کیا۔ پھر انہوں نے ایک خیالی اور فرضی کہانی سنائی جوان جاہل کروڑ پتیوں کے ذہن کی اختراع تھی ، ( جس کے مطابق) جب ہنی بال نے روم کو فتح کیا تو روم کی عورتوں نے اپنے آپ کو’ ہنی بال‘*35- اُسکے افسروں اور عام کرائے کے فوجیوں کے حوالے کر دیا۔ اُنہوں نے حوالہ دیا کہ اُن تمام عورتوں نے، جنہوں نے فاتحین کی پیش قدمی کو روکا تھا، اپنے ( خوبصورت) جسموں کو میدانِ جنگ بنا لیا اور دشمنوں پر غالب آنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا اور اپنے دلیرانہ لاڈ پیار، ناز برداری اور دلفریب اداؤں سے اُن مکروہ اور قابلِ نفرت لوگوں پر فتح پائی اور انہوں نے اپنی عفت و عصمت کو انتقام اور ایثار کے نام پر قربان کر دیا ۔ انہوں نے بڑے مؤثراور شاندار پیرائے میں ایک اعلیٰ خاندان کی اُس انگریز عورت کا ذکر کیا جس نے اپنے آپ کو مہلک جراثیم کا ٹیکہ لگوا لیا تھا تاکہ’ نپولین بونا پارٹ‘ کو بوقتِ ہم آغوشی منتقل کر سکے لیکن وہ عین وقت پر اُس مہلک وصال میں فوری مردانہ کمزوری کی وجہ سے معجزانہ طور پر بچ گیا۔ یہ سب حکایات بڑے سلیقے اور رشک آور طریقے سے بیان کی گئیں اور اِن میں کہیں کہیں جوش و خروش کو بھی جان بوجھ کر شامل کیا گیا۔ وہ بالآخر اس نتیجے پر پہنے کہ اس دنیا میں عورت کا کردار یہ ہے کہ وہ مسلسل اپنے آپ کو قربان کرتی رہے ( اور اُسے چاہیے کہ) فوجیوں کی متلون المزاجی کے آگے سرِ تسلیم خم کر لے۔ دونوں راہبائیں سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے کسی گہری سوچ میں غرق تھیں اور مومی گیند بالکل خاموش تھی۔ دوپہر کو انہوں نے اُسے سوچنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا۔ اب تک تو وہ اُسے مادام (مادام ) کہے جا رہے تھے لیکن اب پتہ نہیں کیوں انہوں نے اُسے محض ’مادموازیل‘ * 36- کہنا شروع کردیا۔ شاید وہ اُسے عزت و اکرام کے اُس مقام سے ( کہ جس پر وہ بزعم خود فائز ہوچُکی تھی) ایک درجہ نیچے لاکر اُسے اپنی اصل شرمناک اوقات یاد دلانا چاہتے تھے۔ جب سُوپ پیا جا رہاتھا تو موسیو فولاں وی نے دوبارہ آکر وہی پرانے الفاظ دہرائے ۔ ’’جرمن افسر پوچھ رہا ہے کہ ماداموازیل ’ایلزابیتھ غو سے‘ نے اپنی رائے تبدیل کر لی ہے؟‘‘ مومی گیند نے خشک انداز میں جواب دیا ، ’’ نہیں جناب‘‘ لیکن رات کھانے پر یہ اتحاد کمزور پڑنے لگا۔ لو آزو نے تین ناخوشگوار جُملے کہے۔ ہر کوئی سر توڑ کوشش کر رہا تھا کہ نئی نئی مثالیں ڈھونڈ لائے لیکن بے سود۔ نواب صاحب کی بیگم نے شاید بلا سوچے سمجھے یا مذہب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک مبہم ضرورت کے پیشِ نظر ، دونوں راہباؤں میں عمر رسیدہ بہن سے اولیاء اللہ کی زندگی کی روشن کارناموں کے بارے میں استفسار کیا(تو اُس نے کہا) ’’ ہاں! بہت سوں نے ایسے اعمال کئے جو بظاہر جرائم دکھائی دیتے تھے لیکن چرچ نے بلا حیل و حجت اُن کو پروانہء جواز عطا کر دیا کیونکہ یہ ’’جرائم‘‘ یا تو خدا کے نام کی سر بلندی یا کسی پڑوسی کے حقوق کی حفاظت کے لیے کیے گئے تھے۔‘‘ یہ بڑی مؤثر دلیل تھی اور نواب صاحب کی بیگم نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اب خواہ اُس کی مسلمہ معاملہ فہمی کے طور پر یا اُس کی نرم خو فطرت کے سبب ، جس میں مذہبی لبادہ اوڑھنے والے درجۂ کمال حاصل کرتے ہیں یا محض ایک کم فہم خوش اعتقادی ، سازگار بے وقوفی کے منطقی نتیجے کے طور پر بوڑھی دیندار خاتون نے اس سازش میں ایک ہیبت ناک زور پیدا کر دیا۔ سب اُسے شرمیلا اور کم گو سمجھ رہے تھے لیکن وہ تو انتہائی پُراعتماد، الفاظ کو بے دریغ استعمال کرنے والی اور مضبوط نکلی، اُسے فقیہوں کی طرح تاویلات اور اٹکل پچو سے کام لینا بالکل نہ آتا تھا لیکن اُس کا نظریہ کسی آہنی سلاخ کی طرح مضبوط تھا، اُس کا عقیدہ غیر متزلزل اور ضمیر میں کسی قسم کا تائل نہ تھا۔ اُس نے حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کو بھی سرسری طور پر لیا کیونکہ وہ تو ماں اور باپ دونوں کو کسی آسمانی حُکم کی بنا پر قتل کرنے کے لیے آمادہ نظر آتی تھی اور اُس کی رائے میں جب مقصد اعلیٰ و ارفع ہو تو خدا ناراض نہیں ہوتا۔ نواب صاحب کی بیگم نے اس مقدس ہستی کی غیر متوقع شرکت کا فائد اٹھاتے ہوئے اُسے اِس مسلمہ اخلاقی صداقت کی شاندار تشریح و توضیح قرار دیا کہ ، ’’ کسی کام کا اچھا انجام اُس کے طریقہ ہائے کار کو حق بجانب بنا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزیددریافت کیا۔‘‘ میری بہن، تمہارا کیا خیال ہے کہ خدا تمام طریقہ ہائے کار کو قبول کرتا ہے اور کسی فعل سے درگزر کرتا ہے جبکہ نیت خالص ہو؟‘‘ ’’مادام! اس میں کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے؟ چاہے ایک فعل بظاہر بُرا ہی کیوں نہ ہو، خدا کے ہاں اخلاصِ نیت کی بنا پر مقبول ٹھہرتا ہے۔‘‘ وہ اسی طرح اللہ کی رضا اور احکامات کی شرح و تفسیر کرتی رہی اوراُس کی دلچسپی ان چیزوں میں ثابت کرتی رہی جن چیزوں سے وہ قطعی بے نیاز تھا۔ یہ سب کچھ بڑے سلیقے ، بڑی ہوشیاری اور ملفوف طریقے پر ہو رہا تھا لیکن لمبی سفید ٹوپی والی مقدس راہبہ کا ہر جملہ اُس طوائف کی مدافعت کے حصار میں شگاف ڈال رہا تھا۔ پھر گفتگو میں ذرا تبدیلی آئی ۔ جس راہبہ کے گلے میں تسبیحیں اور مالائیں لٹکی ہوئی تھیں اُس نے اپنے محکمۂ اعلیٰ ، اپنے افسرانِ بالا، خود اپنا اور اپنی جاذبِ نظر ساتھی سسٹر’سینٹ نی سے فوغ‘ کا تعارف کروایا۔ انہیں ’ہاوغ‘ *37- کے ہسپتالوں میں اُن سینکڑوں فوجیوں کی تیمارداری کے لیے بلوایا گیا تھا جو چیچک کی بیماری کا شکار ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس بیماری کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ انہوں نے اُن بے چاروں کی دیکھ بھال کرنی ہے اور اس صورت حال میں کہ اس من موجی جرمن نے ان کا راستہ روکا ہوا ہے، فرانسیسیوں کی بہت زیادہ تعداد کے مرنے کا خدشہ ہے۔ (بصورتِ دیگر) وہ شاید انہیں بچا سکتی ہیں۔ (زخمی) فوجیوں کی دیکھ بھال میں اُسے درجہء اختصاص ( سپیشلائزیشن) حاصل تھا اور اُس نے بتایا کہ وہ کریمیا، اٹلی اور آسٹریا کی جنگوں میں (بطور نرس) شریک تھی۔ محاذِ جنگ پر اپنے کارنامے گنواتے ہوئے ان راہباؤں میں سے ایک نے اچانک بڑی شدو مد کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ عین میدانِ جنگ سے زخمیوں کو اٹھا کر عقبی کیمپ تک لاتی رہی ہے اور افسروں کے مقابلے میں بگڑے ہوئے غیر منظم ( زخمی) فوجیوں کو سیدھا کرنا اُس کے لئے ایک لفظ کی مار تھا۔ وہ ( صحیح معنوں میں) ایک ہمدرد اوراعزاز یافتہ نرس تھی جس کے تباہ حال جسم پر لا تعداد سوراخ بنے ہوئے تھے اور وہ جنگ کی تباہ کاریوں کا ایک نمونہ دکھائی دیتی تھی۔ اُس کی تقریر کا غیر معمولی اثر ہوا اور اس کے بعد کوئی نہ بولا۔ جونہی کھانا ختم ہوااور وہ اپنے کمروں میں سونے کیلئے چلے گئے۔ انکا دیر تک سوئے رہنے کا ارادہ تھا ۔ صبح ناشتے پر بھی ایک سکوت چھایا رہا ۔ وہ اس بوئے ہوئے بیج سے کونپل نکلنے اور اسے ثمردار درخت بننے کیلئے وقت دینا چاہتے تھے۔ نواب صاحب کی بیگم نے تجویز دی کہ بعد دوپہر سیر کو نکلا جائے۔ نواب صاحب نے ازراہِ کرم مومی گیند کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور باقی لوگوں کے پیچھے اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ وہ اُس کیساتھ ایک مانوس اور مربیانہ لہجے میں بات کر رہے تھے جس میں کہیں کہیں تحقیر کا بھی شائبہ ہوتا تھا جیسا کہ بالعموم اشرافیہ کے لوگ اس طرح کی لڑکیوں سے بات کرتے ہوئے اختیار کرتے ہیں۔ وہ اُسے اپنی بلند تر سماجی حیثیت اور واضح تر جاہ و حشم کے باوجود ’’میری پیاری بچی‘‘ کہہ کر بُلا رہے تھے لیکن جلد ہی وہ اپنے مطلب کی بات پر آگئے۔ ’’ اچھا! تو کیا تم ہمیں یہیں رکھنا چاہو گی؟ کیا تم چاہو گی کہ ہم بھی تمہارے ساتھ اُن تمام مشکلات کا شکار ہو جائیں جو جرمن دستوں کی شکست کی صورت میں ہم پر وارد ہو سکتی ہیں؟ یا تم یہ ’’مہربانی‘‘ کرنے پر آمادہ ہو جاؤ جو تمہاری زندگی میں ایک معمول کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ مومی گیند نے کو ئی جواب نہ دیا۔ اُنہوں نے اُسے نرمی ، دلائل اور جذبات سے قائل کر لیا اور اس دوران اپنی نوابی شان کوحتیٰ الامکان برقرار رکھا۔ اُنہوں نے اُس کی اِس ’’خدمت‘‘ کو جو وہ ان کے لیے انجام دینے جارہی تھی توصیفی انداز میں بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور اِس کیلئے اپنی ممنونیت کا اظہار کیا اور پھر اچانک ہی خوش دلی سے اُس کے ساتھ تُو تڑاخ کرتے ہوئے کہا کہ ،’’ وہ تم جیسی خوبصورت لڑکی کے حصول پر ناز کر سکتا ہے۔ اُسے تم جیسی اپنے مُلک میں کہاں ملے گی ۔‘‘ مومی گیند نے کوئی جواب نہ دیا اور (آگے جانے والے) دوسرے لوگوں سے جا ملی۔ جو نہی وہ سرائے لوٹے تو وہ فوراً اپنے کمرے میں چلی گئی اور پھر باہر نہ نکلی ۔ بے چینی و بے قراری اپنی انتہا پر تھی۔ اُس کا کیا ارادہ ہے؟ کیا وہ مزاحمت کرے؟ اب کیا رکاوٹ ہے؟ (رات کے) کھانے کی گھنٹی بجی۔ سب نے اُس کا انتظار کیا لیکن لا حاصل ۔ پھر موسیو فولاں وِی آئے اور کہا کہ مادموازیل غو سے کی طبیعت ناساز ہے آپ لوگ کھانا کھالیں۔ سب لوگوں نے کان کھڑے کر لیے ۔ نواب صاحب نے سرائے کے مالک کے قریب جا کر سرگوشی میں پوچھا ۔ ’’ سب کچھ ٹھیک ہے نا؟ ‘‘ ’’ہاں‘‘ انہوں نے شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو کچھ نہیں بتایا بلکہ محض سرکی ایک ہلکی سی جنبش سے اثبات کا اظہار کیا۔ سب لوگوں نے سُکھ کا ایک گہرا سانس لیا ۔ ایک طرح کی خوشی اور انبساط اُن کے چہروں سے جھلکنے لگا۔ لو آزو نے نعرہ لگایا ، ’’ جی او جی ۔۔۔ واہ بھئی واہ‘‘ اور اپنی طرف سے وہاں موجود سب لوگوں کو شمپئین*38- کی دعوت دی ۔ مادام لو آزو اُس وقت شدید بے چینی کے کرب سے گزریں جب سرائے کا مالک اپنے ہاتھوں میں (شمپئین کی) چار بوتلیں لیے لوٹ آیا۔ ہرکوئی فوراً ہی چہکنے لگا۔ ایک مستی بھر سرخوشی ان کے دلوں پر چھا گئی۔ نواب صاحب کو پہلی مرتبہ مادام ’کاغے لامادوں‘ کی دلفریب خوبصورتی کا احساس ہوا اور کارخانے دار ( لو آزو) بھی نواب صاحب کی بیگم کے سامنے بچھ بچھ جا رہا تھا۔ گفتگو میں ہنسی مذاق ، دلگی اور چٹکلے بازی درآئی۔ ’لو آزو‘ اچانک متفکر چہرے کے ساتھ دونوں بازو اوپر اٹھائے ہوئے چلایا ’’خاموش‘‘ ۔ سب چپ کرگئے ۔ ہر کوئی حیران بلکہ ذرا سہما ہوا بھی تھا۔ پھر اُس نے دونوں ہاتھوں سے خاموش رہنے کااشارہ کرتے ہوئے ’’ شش‘‘ کہا اور (لکڑی سے بنی) چھت کی طرف دیکھتے ہوئے پھر سے کان دھر کر کچھ سننے کی کوشش کرنے لگا ۔ پھر اُس نے اپنی معمول کی آواز میں کہا ، ’’ یقین کریں سب اچھا ہے۔‘‘ انہیں کچھ کچھ سمجھ آ رہی تھی پر وہ ( کوئی واضح رائے قائم کرتے ہوئے) جھجھک رہے تھے لیکن جلد ہی اُن کے چہروں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد پھر وہی پھکڑ پن شروع ہو گیااور وقفے وقفے سے یہی ہلّہ گُلہ جا ری رہا۔ وہ اوپری منزل پر کسی کی نقل و حرکت کو محسوس کر رہا تھااور سفری تاجروں کے سے انداز میں اُسے ذومعنی ہدایات دے رہا تھا ۔ کبھی وہ ٹھنڈا سانس بھر کے اداس لہجے میں کہتا ’’ بے چاری لڑکی‘‘ کبھی وہ دانت کچکچاتے ہوئے بڑبڑاتا ، ’’ جرمنوں کی کتیا! جامر بھی۔‘‘ اور جب ان کی توجہ اس موضوع سے ہٹنے لگتی تو وہ اپنی مرتعش آواز میں بارہا پکار اٹھتا ’’ ہاں یہ کافی ہے ، بس یہ ٹھیک ہے‘‘ اور خود کلامی کے انداز میں مزید کہتا ، ’’اگر وہ اُس کے سامنے جائے گی تو وہ اُسے کھا تو نہیں جائے گا ؛ منحوس۔‘‘ آپس کا ہنسی مذاق اب گھٹیا سطح پر اتر آیا تھا اوروہ کسی کی دل شکنی کیے بغیر اس سے لطف اندوز ہورہے تھے کیونکہ ناپسندیدگی کا انحصار حالات پر ہوتا ہے اور اُن کے ارد گرد جو ماحول بن چکا تھا اُس میں رفتہ رفتہ جنسی تلذذ کے خیالات پوری طرح سے داخل ہو چُکے تھے۔ کھانے کے بعد میٹھے کا دور چلا اور اس وقت تک خواتین بھی اشارے کنائے سے ’’ اس گفتگو‘‘ میں شامل ہو گئیں ان کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں اور انہوں نے خوب چڑھا رکھی تھی۔ نواب صاحب نے اپنی سنجیدگی اور متانت کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ صورتِ حال کو عمومی تعریف و توصیف کے دوران، اُن ملاحوں کی سرخوشی کے مماثل قرار دیا کہ جن کا جہاز ڈوب گیا ہو اور انہیں قطب شمالی میں طویل موسم سرما کے اختتام پر جنوب کے سمت برف پگھلنے پر کوئی راہِ فرار دکھائی دے رہی ہو۔ ’لو آزو‘ اپنی ترنگ میں تھا اٹھ کھڑا ہوا شمپئین کا ایک گلاس اس کے ہاتھ میں تھا اُس نے جام تجویز کیا ، ’’ میں یہ جام ہم سب کی نجات کے نام کرتا ہوں‘‘، سب لوگ کھڑے ہو گئے اور اُسکی با آواز بلند ستائش کی ۔ دونوں مقدس بہنوں نے بھی خواتین کی درخواست پر اس جھاگ والی شراب سے ہونٹ تر کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ، جو انہوں نے پہلے کبھی نہ چکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوڈے والی سکنجبین کی طرح ہے لیکن بہت بڑھیا ہے۔ لو آزو نے کہا کہ کتنی بدقسمتی ہے کہ آج یہاں پیانو نہیں ہے ورنہ ’کا دغی‘ *39-سے لطف اندوز ہونے کا موقع تھا۔’ کوغ ینودے‘ ایک لفظ بھی نہیں بولا اور بے حس و حرکت بیٹھا رہا وہ گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا تھا کبھی وہ غصے میں آکر اپنی لمبی داڑھی کو نوچنا شروع کر دیتا اور یوں لگتا تھا کہ وہ اسے کھینچ کھانچ کراور بھی لمبا کرنا چاہتا ہے۔ بالآخر رات بارہ بجے کے قریب جب وہ اپنے اپنے کمروں میں جانے والے تھے ، ’لو آزو‘ نے لڑکھڑاتے ہوئے ’کوغ ینودے‘ کے پیٹ پر ایک ٹہو کا دیا اور بُڑ بڑایا ، ’’ آپ جناب آج شام سے کیوں ہنس بول نہیں رہے ؟‘‘کوغ ینودے نے دفعتاًسر اٹھایا اور تمام گروہ پر ایک شعلہ بار نظر ڈالی ، ’’میں تم سب سے کہتا ہوں کہ تم ایک شرمناک حرکت کر رہے ہو۔ ‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی سمت بڑھتے ہوئے اُس نے دہرایا ’’ ایک شرمناک حرکت ‘‘ اور باہر نکل گیا۔ اُس لمحے محفل میں ایک سکوت چھا گیا ۔ ’لو آزو‘ شرمندہ شرمندہ احمقوں کی طرح منہ پھاڑے کھڑا تھا لیکن جلد ہی اس کے اوسان بحال ہو گئے پھر وہ ہنسی کے مارے دُہرے ہوتے ہوئے لگا تار کہتا رہا،’’ میری جان ! انگور کھٹے ہیں ، انگور بہت زیادہ کھٹے ہیں ‘‘۔ کسی کو سمجھ نہ آیا کہ کیا معاملہ ہے پھر اُس نے ’’ راہداری کے اسرار ‘‘ شروع سے آخر تک بیان کیے ۔محفل میں پھر وہی بھر پور شگفتہ مزاجی لوٹ آئی۔ خواتین پاگلوں کی طرح خوش فعلیوں میں مصروف تھیں ۔ نواب صاحب اور موسیو ’کاغے لامادوں‘ کی آنکھوں میں ہنستے ہنستے آنسو آگئے تھے ایسا اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ’’تم کیسے اِتنے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ وہ اُس کے ساتھ ۔۔۔ ‘‘ ’’جناب میں نے اُسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘ ’’اور اُس نے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’کیونکہ ساتھ والے کمرے میں جرمن افسر موجود تھا۔‘‘ ’’ایسا ممکن نہیں؟‘‘ ’’جناب میں قسم کھانے کیلئے تیار ہوں یہ سچ ہے۔ ‘‘ نواب صاحب مضطرب تھے اور کارخانہ دار نے دونوں ہاتھوں سے اپنے پیٹ کو جکڑ رکھا تھا۔’ لو آزو‘ بولتا گیا۔ ’’آپ نے دیکھا کہ اُس نے آج کی شام کسی خوش طبعی کا مظاہر ہ بالکل نہیں کیا۔‘‘ ان پر پھر ہنسی کا دورہ پڑ گیا تینوں مرد ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے انکے لیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ پھر وہ نچلی منزل پر ہی علاحدہ علاحدہ ہو گئے۔ اورمادام لو آزو نے ، جس کی فطرت میں تلخ کلامی شامل تھی اپنے خاوند کو بستر پر لیٹتے ہوئے بتایا کہ،’’ یہ میسنی ٹھگنی کاغے لامادوں کی بیوی ، بیماروں جیسی شکل، ساری شام زبردستی مسکراتی رہی ہے تمہیں پتہ ہے کہ جب یہ وردی کے عشق میں مبتلا ہوتی ہیں تو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے اندر فرانسیسی ہے یا جرمن ہے؛ ان کے لیے دونوں برابر ہیں ۔ میرے خدامجھے تو اُس پر ترس آتا ہے۔‘‘ رات بھر باہر تاریک راہداری میں ہلکی سی سرسراہٹ آتی رہی جیسے کوئی ننگے پاؤں آہستگی سے بنا کوئی آواز پیدا کیے چل رہا ہو اور یہ آواز اتنی مدہم تھی کہ بمشکل سنائی دیتی تھی یقیناًوہ رات دیر تک نہ سو سکے کیونکہ انکے دروازوں کی نچلی درز سے روشنی تا دیر نکلتی رہی۔ شمپئین کے اپنے اثرات تھے کہا جاتا ہے کہ یہ نیند کو خراب /اُچاٹ کر دیتی ہے ۔ اگلے دن موسمِ سرما کا سورج برف کو منور کر رہا تھا۔ بگھی میں بالآخر گھوڑے جوتے جا چکے تھے اور(ہوٹل کے) دروازے کے سامنے روانگی کیلئے تیار کھڑی تھی جبکہ گردن اکڑائے ، گلابی آنکھوں میں سیاہ تِل والے سفید کبوتروں کی ایک ٹولی ، پھڑپھڑاتے ہوئے بھاری پروں کیساتھ چھ گھوڑوں کی ٹانگوں کے درمیان تیزی سے آجارہی تھی اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بھاپ چھوڑتی لید کو کرید کر اپنا رزق تلاش کررہے تھے۔ کوچوان نے بھیڑ کی کھال سے بنا ہوا کوٹ پہنا ہوا تھا اور وہ اپنی نشست پر بیٹھ کر پائپ سلگا رہا تھا اور تمام مسافر خوشدلی سے بقیہ سفر کیلئے جلدی جلدی کھانے پینے کی اشیاء بندھوانے میں مصروف تھے۔ اب صرف مومی گیند کا انتظار ہو رہا تھا۔ وہ آگئی ۔ وہ پریشان ،شرمندہ شرمندہ اور بدحواس دکھائی دے رہی تھی وہ شرماتی ہوئی اپنے ساتھیوں کی طرف بڑھی لیکن وہ سب کے سب مڑ کرایک طرف کھڑے ہو گئے اور انہوں نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے اُس کو دیکھا ہی نہیں ، نواب صاحب نے بڑی شان سے اپنی بیوی کا بازو پکڑا اور اسے دور لے گئے کہ مبادا وہ اسے چھو کر ناپاک ہو جائیں۔ وہ موٹی لڑکی دم بخود ہو کر رُک گئی ۔ پھر اپنے حواس مجتمع کر کے کارخانے دار کی بیوی کے قریب گئی اور نہایت ادب کیساتھ ’’ صبح بخیر مادام‘‘ کہا لیکن اُس نے کمال بدتمیزی سے اُس پر ایک حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے محض سر کو ہلا کر جواب دیا۔ ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دے رہا تھا جیسے کسی کواُس سے سروکار نہ ہو اور سب لوگ اُس سے یوں پرے پرے ہو رہے تھے جیسے اُس کے کپڑوں میں بیماریوں کے متعدی جراثیم موجود ہوں۔ پھر وہ بگھی میں لپک کر سوار ہو گئے اور وہ اکیلی ہی رہ گئی سب سے آخر میں وہ بگھی کی طرف بڑھی اور خاموشی سے اُسی نشست پر بیٹھ گئی جہاں وہ سفر کے پہلے حصہ میں بیٹھی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ انہوں نے اُسے دیکھا ہی نہیں اور اُسے پہچانتے ہی نہیں لیکن مادام ’لوآزو‘ نے اُس کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے اپنے شوہر سے دبی ہوئی آواز میں کہا ، ’’شکر ہے کہ میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھی ‘‘ بھاری بھرکم بگھی کھڑکھڑائی اور سفر دوبارہ شروع ہو گیا۔ پہلے تو وہ سب چپ چاپ بیٹھے رہے مومی گیند کے اندر نظریں اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں تھی وہ بیک وقت اپنے آپ کو اُس جرمن کے بوسوں کی بارش میں بھیگی ہوئی اور اپنے اُن ساتھیوں کے مقابلے میں خود کو حقیر اور ذلیل سمجھ رہی تھی جنہوں نے ایک سازش کے تحت اُسے جرمن افسر کی آغوش میں جانے پر مجبور کر دیا تھا ۔اُسے اپنی مزاحمت ترک کرنے پر افسوس ہو رہا تھا۔ نواب صاحب کی بیوی نے مادام کاغے لامادوں کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے اس اذیت ناک خموشی کو توڑا۔ ’’میرا خیال ہے کہ آپ ’مادام دیت غیل کو جانتی ہوں گی؟‘‘ ’’ہاں وہ میرے دوستوں میں سے ہے۔‘‘ کیا دلکش اور شاندار خاتون ہے۔وہ اصلی اشرافیہ کی نمائندہ ہے اُس کی پور پور سے فن جھلکتا ہے کیا اچھا گاتی ہے لیکن خاصی چالاک بھی ہے۔‘‘ کارخانے دار نواب صاحب کے ساتھ محوِ گفتگو تھا۔ بگھی کی کھڑکیوں کی چرچراہٹ میں کبھی کبھی یہ الفاظ سنائی دیتے تھے، ’’ حصص، بدلہ ، تاریخ ادائیگی ، سود ۔۔۔ متوقع سودے ۔۔۔ وغیرہ ‘‘ لو آزو سرائے سے تاش کی دو پرانی گڈیا ں اٹھا لایا تھا جس کے پتے گزشتہ پانچ سال سے میلی کچیلی میزوں پررگڑ کھا کھا کر چکنے ہو رہے تھے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ’’بے زیگ ‘‘ *40-کی بازی جمائی۔ دونوں راہباؤں نے اپنے کمر بند سے لٹکی لمبی لمبی تسبیحیں نکال لیں ، سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور اُنکے ہونٹ تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ اُنکی زیرِ لب مناجات کی ادائیگی تیز سے تیز تر ہو تی جا رہی تھی وہ وقتاً فوقتاً اپنے گلے میں لٹکی صلیبوں کو چومتیں سینے پر صلیب کا نشان بناتیں اور بسرعت دوبارہ زیر لب دعاؤں میں مشغول ہو جاتیں۔ ’کوغ ینودے‘ کسی گہری سوچ میں بے حس و حرکت بیٹھا ہوا تھا۔ تین گھنٹے گزرنے کے بعد’ لو آزو‘ نے تاش کے پتوں کو سمیٹ لیااور کہا کہ بھوک لگ رہی ہے۔ پھر اُس کی بیوی نے ایک بندھا ہوا پارسل کھول کر اُس میں سے یخ بستہ بچھڑے کے گوشت کا ایک ٹکڑا نکالا ۔ اُس نے اسے چھوٹے چھوٹے نفیس پارچوں میں کاٹا اور دونوں مل کر کھانے لگے۔ ’’ کیا ہم بھی کچھ لے نہ لیں؟‘‘ نواب صاحب کی بیگم نے کہا ۔ اُن کی طرف سے اثبات کا اشارہ ملنے پر وہ اُن کیلئے تیار کی گئی مختلف اشیائے خوردنی کھولنے لگیں جو ایک لمبے ٹفن میں بند تھیں جس کے ڈھکن پر چینی کا(ایک) خرگوش بنا ہوا تھا (اُس ٹفن کے) ایک ڈبے میں بھنا ہوا خرگوش ، ( ایک میں) مزیدار سؤرکا گوشت تھا اور کتھئی رنگ کے گوشت میں سور کی چربی کے سفید قتلے باریک قیمے کے درمیان نظر آ رہے تھے۔ ایک بڑی سی پنیر کی ٹکیہ بھی ایک اخبار میں لپٹی ہوئی دکھائی دے رہی تھی ایک جگہ پنیر کی چکنائی اخبار کی سطح پر آ گئی تھی اُس جگہ سرخی تھی ،’’ مختصر خبریں‘‘ دونوں راہباؤں نے قیمے والے رول نکالے جن سے لہسن کی بو آ رہی تھی۔ ’کوغ نیودے‘ نے بیک وقت اپنے دونوں ہاتھ کوٹ کی بڑی بڑی جیبوں میں ڈالے اور ایک سے چار اُبلے ہوئے انڈے نکالے اور دوسری میں سے لمبی ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا ۔ اُس نے انڈوں کے چھلکے اتارے اور انہیں پاؤں کے نیچے پڑی گھاس پھونس پر پھینک دیا اور انڈوں کو دانتوں سے کاٹ کر کھانا شروع کر دیا سفیدی اور زردی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اُسکی وسیع و عریض داڑھی پر ستاروں کی طرح ٹانکے ہوئے لگ رہے تھے۔ مومی گیند کو جلدی اور بد حواسی میں اپنے ساتھ کچھ کھانے کی چیزیں لانے کا خیال ہی نہ آیاتھا ۔ وہ غصے میں بھری قہر آلو د نظروں سے اپنے تمام ہمراہیوں کو دیکھ رہی تھی جو اطمینان سے کھائے چلے جا رہے تھے ( اور اُسے جھوٹے منہ پوچھا تک نہیں تھا)۔ پہلے تو اُسے ایک ہیجانی غصے نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اُس نے منہ کھولا تاکہ انہیں چیخ چیخ کر گالیاں دے مغلظات کا ایک ریلا اُس کے ہونٹوں تک آ رہا تھا لیکن غم و غصے کی شد ت سے الفاظ اُس کے حلق میں گھٹ کر رہ گئے تھے۔ کوئی بھی اُس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ کسی کو اُ س کا خیال تک نہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو اِن لالچی شرفاء کی نفرت میں ڈوبا ہوا محسوس کر رہی تھی کہ پہلے تو اُنہوں نے اُسے (اپنے مفادات پر ) قربان کیا اور پھر ایک ردّی اور بیکار شے سمجھ کر ایک طرف پھینک دیا تھا۔ اُسے اپنی بڑی ٹوکری کا خیال آیا جو انواع و اقسام کی چیزوں سے بھری ہوئی تھی اور جسے یہ سب مزے سے چٹ کر گئے تھے۔ اُسے اپنی دو بھُنی ہوئی مرغیوں کا خیال آیا ، اُسے اپنی کچوریوں ، ناشپاتیوں اور کلارٹ کی چار بوتلوں کے بارے میں سوچا ۔۔۔ اور اچانک اُسکا سارا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا جیسے کوئی سختی سے تنی ہوئی تار اچانک ٹوٹ جائے۔ اُسے محسوس ہوا کہ وہ رو دینے کو ہے ۔ اُسے اپنی تشنجی کیفیت پر قابو پانے کیلئے بہت زیادہ کوشش کرنی پڑی وہ بچوں کی طرح اپنی سسکیوں کو پی گئی لیکن آنسو تھے کہ اُمڈے چلے آ رہے تھے ۔ اُسکی پلکوں کے کناروں پر دو موٹے موٹے آنسو چمکے اور اُس کے گالوں پر گر کے آہستگی سے بہنے لگے پھر تو جیسے جھڑی لگ گئی ۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی چٹان میں سے پانی کے قطرے رِس رِس کر اُس کے بھرے بھرے سینے پر مسلسل گر رہے ہیں۔ اُس کا چہرہ زرد اور کسی احساس سے عاری تھا ۔ وہ خالی خالی نظروں سے تکے جا رہی تھی اور دل سے چاہ رہی تھی کہ کوئی اُس کی طرف نہ دیکھے۔ نواب صاحب کی بیگم نے اُس کی کیفیت کو بھانپ لیا اور اپنے خاوند کو اشارے سے اُس کی طرف متوجہ کیا ۔ اُنہوں نے کندھے اُچکائے کہ جیسے کہہ رہے ہوں، ’’ تم کیا جانتی ہو؟ اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی‘‘ مادام لو آزو نے دبی دبی اور فاتحانہ ہنسی میں سرگوشی کی کہ ’’ وہ اپنی روسیاہی کی وجہ سے رو رہی ہے۔‘‘ دونوں راہبہ بہنوں نے اپنے بچ رہنے والے قیمے کے رول ایک کاغذ میں لپیٹے اور دوبارہ اپنی دُعاؤں میں مشغول ہو گئیں۔ ’کوغ ینودے‘ نے اپنے انڈوں کو ہضم کرنے کے لیے اپنی لمبی ٹانگوں کو پھیلا کر سامنے والے بینچ کے نیچے کر لیا اور پیچھے کی طرف ہو کر ٹیک لگا لی اور بازوؤں کو اپنے سینے پر باندھتے ہوئے اُس شخص کی طرح مسکرایا جسے ابھی ابھی کوئی لطیفہ سوجھا ہو لیکن سیٹی میں ’ماغ سی ایز *41-کی دُھن بجانے لگا ۔ سب کے چہروں پر ایک افسردگی تھی ۔ یہ مقبول ترانہ یقینی طور پر اُس کے ساتھیوں کو اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ سب جھنجھلاہٹ اور چڑچڑے پن کا شکار تھے وہ اُن چوکنے کتوں کی طرح لگ رہے تھے جو کسی دشمن کی آواز سن کر بھونکنے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔ اُس نے اُن کی طرف دیکھا ۔ لیکن رُکا نہیں (مسلسل سیٹی بجاتا رہا) کبھی کبھی وہ گنگنانے لگتا ’’ وطن کی مقدس محبت بڑھے چلو ۔۔۔ قوتِ بازو ۔۔۔آزدی ۔۔۔ پیاری آزادی ۔۔۔ تیرے محافظوں کے شانہ بشانہ جنگ !‘‘ وہ تیز رفتاری سے سفر کر رہے تھے ، برف جم کر سخت ہو چکی تھی ، دی ایپ ( شہر) کے آنے تک سفر کی لمبی مغموم ساعتوں کے دوران ، راستے ( کے گڑھوں کی وجہ سے لگنے والے ) جھٹکوں کے درمیان ، ڈھلتی شام اور گہری ہوتی ہوئی رات اور اُس پر بگھی کے اندر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینے والی تاریکی لیکن وہ مسلسل ڈھٹائی کے ساتھ ایک ہی سُر میں سیٹی پر قومی ترانہ بجاتا رہا اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک بیٹھے ہوئے لوگوں کی تھکی ہوئی اور چڑچڑی روحوں کیلئے اذیت کا سامان کرتا رہا اور ایک ہی مصرع طرح طرح سے بار بار دُہراتا رہا تا کہ ان لوگوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر سکے۔ مومی گیند مسلسل روئے چلی جا رہی تھی ۔ کبھی کبھی سسکیاں اُس کے بس میں نہ رہتیں اور تاریکی میں قومی ترانے کے اشعار کے درمیان وقفوں میں واضح طور پر سنائی دیتی تھیں۔
    ختم شد
 حواشی و تعلیقات
*1- Rouenازمنۂ وسطی میں نار منڈی کا دار الحکومت تھا موپاساں کا تعلق بھی اسی صوبے سے تھا یہ علاقہ 1418سے 1449ء تک انگلستان کے قبضے میں رہا اور 1870ء میں جرمنی کے زیرِ تسلط آگیا یہ کہانی اسی جرمن قبضے کے تناظر میں لکھی گئی۔ غوآں کی ایک اور وجہ شہر ت یہ ہے اسی شہر میں جو ن آف آرک پر مقدمہ چلایا گیا اور اُسے زندہ جلا دیا گیا ۔ *2- Bourg-Achard ، Saint-Sever اور Pont-Audemer ۔ بوغ آشاغ نارمنڈی بالا کا ایک چھوٹا سا شہر جو پیرس سے ۱۵۰کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے پوں تودمیغ بھی نارمنڈی بالا میں واقع ہے جبکہ سیں سوے موجودہ انتظامی تقسیم میں ہماری اصطلاح کے مطابق ایکی تان ڈویژن ، ضلع لاند اور تحصیل موں دمارساں میں واقع ہے۔
*2A- دریائے سین Seine: اور دریائے سین فرانس کا دوسرا بڑا دریا اور تجارتی آبی گزر گاہ ہے اور سیر پیرس میں سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہے ۔ یہ نام لاطینی لفظ Sagene ’’ساجین ‘‘سے نکلا ہے ۔ جسکا لفظی مطلب ہے ’جال‘ دریا کی کل لمبائی 780کلو میٹر ہے جبکہ سب سے طویل دریا دریائے لو آغ Loire ہے جسکی لمبائی 1020کلو میٹر ہے ۔ اسکا پرانا نام لاطینی نام ’’سسے گانہ‘‘ Seguanaتھا ۔ پانچ چھوٹی چھوٹی ندیاں مل کر دریائے سین کی تشکیل کرتی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے ۔ شمال سمت سے آنے والی Aube، Marneاور Oise ہیں جبکہ جنوبی سمت سے Yonne اور Eure آکر ملتی ہیں دریائے سین مختلف نہروں کے ذریعے دوسرے دریاؤں Scheldt، Muse، Rhine، Saone اور دریائے Loireسے منسلک ہے ۔ یہ دریا فرانس کے ریجن برگنڈی میں سطح سمندر سے 1547فٹ کی بلندی پر شروع ہوتا ہے جبکہ پیرس میں اُس کی سطح سمندر سے بلندی محض ۸۰فٹ رہ جاتی ہے ۔ سیاحوں کی خاص دلچسپی مخصوص واٹر بس یا کشتیوں میں دریا کی سیر کرتے ہوئے پیرس کے حسن سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ خاص خاص مناظر میں ’نوتغ دام ‘کا گرجا Hunchback of Notre Dame)، وکٹرہیوگو کے مشہور ناول والا گرجا ) ، لوور کا عجائب گھر جہاں مونا لیزا کی تصویر رکھی ہوئی ہے میوزے دوغ سے Musee d'Orsay)جہاں Impressionist Artکے آرٹ کے نادر نمونے رکھے گئے ہیں (اور ایفل ٹاور کے خوبصورت مناظر دکھائی دیتے ہیں ۔ ۱۹۹۱ء میں UNESCO نے اس دریا کو عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اس دریا کو بیلجیم میں بہنے والے ایک چھوٹے سے دریا Senneجس کا نام بھی اس سے ملتا جلتا ہے سے خلط ملط نہیں کرنا چاہئیے۔
* 3- Breville اس نام کے کئی چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں جن میں مشہور Breville Calvados ہے دوسرا بغے وی شاغانت(Brville Charante ہے تیسرا بغے وی سیوغ میغ ہے (Breville Sur mer) ضلع مانش میں واقع ہے۔
*4- Henry IV ہنری چہارم شاہِ فرانس
*5- Nante ۔ نانت Pays de la Loireکا دار الحکومت ہے۔ اسے70 قبل مسیح میں کیلٹک قبیلے نانیتی (Namneti) نے آباد کیا اور جولیس سیز نے سن 56قبل مسیح میں اسے فتح کیا اور نام پورٹس نانٹس (Portus Namnetus) رکھا گیا غلاموں کی تجارت پر پابندی کے قانون سے پہلے یہ شہر غلاموں کی تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے پہلے پبلک ٹرانسپورٹ یعنی اومنی بس سروس کا آغاز اس شہر سے 1826ء میں ہوا پھر جلد ہی پیرس لندن اور نیو یارک میں اس کی تقلید کی گئی
*6- (یہاں موپاساں نے لفظ Larmateur استعمال کیا جس کا انگریزی نعم البدل Privateerہے یعنی ایسا مسلح بحری جہاز جو کسی شخص کی نجی ملکیت میں ہو اور جسے دشمن کی جہاز رانی یا جنگی جہازوں کے خلاف کاروائی کرنے کا سرکاری پروانہ حاصل ہو)
*7- Francفرانک: ابتدا میں یہ خالص سونے کا سکہ تھا جس کا وزن 3.87g گرام تھا اسے پہلی مرتبہ 1360ء میں ڈھالا گیا 1360ء سے ۱۶۴۱ء تک فرانس کی قومی کرنسی کے طور پر رائج رہا۔ 1641ء لوئی ہشتم نے فرانک کو قانونی سکے کے طور پر منسوخ کر دیا اور اُس کی جگہ سونے کا سکہ ’’لُوئی‘‘ (Louis)اور چاندی کا سکہ ’’اے کیو ‘‘ (ecu) جاری کیا بعد ازاں 1795ء سے 1999ء تک پھر فرانس کی کرنسی قرار پایا اور فرانسیسی نو آبادیوں کیلئے بھی استعمال ہوتا رہا تا آنکہ 1999ء یورو فرانس اور تمام یورپ کی کرنسی قرار پایا۔
*8- (اُس کا اصل نام ایلیزبتھ غو سے تھا اور عرفیت Boule de Suifتھی جس کا لفظی ترجمہ ’’چربی کا گولہ ‘‘ ہے لیکن یہ ترجمہ ذوقِ سلیم کو گراں گزرتا ہے۔ Suifکا ایک اور معنی موم بھی نکلتا ہے لہذا مومی گیند زیادہ خوبصورت لگا۔ مترجم )
*9-۔Free massons ایک نئی تھیوری کے مطابق اس تحریک کا آغاز رفاہِ عامہ اور فلاحی کاموں کے دائرے میں ہوا۔ سولہویں صدی میں کوئی ویلفیئر سٹیٹ موجود نہیں تھی لہذا بیمار معذور افراد جو کسی طرح اپنی روز ی نہ کما سکتے تھے وہ دوستوں یا غریبوں کیلئے قانون کی طرف سے امداد کے منتظر رہتے تھے مختلف تاجروں نے مخصوص صندوق رکھے ہوئے تھے جس میں وہ وقتا فوقتا اپنی کمائی میں سے کچھ حصہ بطور خیرات ڈال دیتے تھے جو بعد ازاں ضرورت مندوں کے کام آتا تھا۔ یہ لوگ مقامی سطح پر رفاہی اور فلاحی کاموں میں لوگوں کی ضروریات پوری کرتے تھے ۔ وہ عام شراب خانوں اور عوامی مقامات پر ملتے اور مخصوص الفاظ کی ادائیگی پر ایک دوسرے کو پہچان لیتے۔ان کی باقاعدہ تنظیم کا آغاز24جون 1717ء کو ہوا جب چار اداروں نے مل کر ایک بڑے ادارے Grand Lodgeکی بنیاد رکھی جس میں ایک گرینڈ ماسٹر اور وارڈنز کا انتخاب کیا گیاآج عالمی سطح پر یہ تنظیم اپنے دائرہ کار میں مصروف ہے کیونکہ یہ لوگ اپنا کام نہایت خاموش اور رازداری سے کرتے ہیں لہذا کئی افسانے اور کہانیاں ان کی طرف منسوب ہیں ۔
*10- (موپاساں اپنے تمام افسانے میں فاصلے کی اکائی لیؤ Lieuبیان کرتا ہے جسکا انگریزی مترادف Leagueہے ایک لیؤ چار کلو میٹر یا ڈھائی میل کے برابر ہوتا ہے لہذا لیؤ کو چار سے ضرب دے کر فاصلہ کلو میٹروں میں بیان کیا گیا ہے ۔ مترجم)
*11- (Rhumگنے کی شراب)
*12- (Bordeaux کھانے کے ساتھ پی جانے والی ارغوانی سرخ شراب ) Brodeaux بوغ دو فرانس کے جنوب مغرب میں واقع ایکی تان ریجن کا دار الحکومت ہے اور اس شہر کو شراب کی دنیا کا دار الحکومت بھی کہتے ہیں آٹھویں صدی عیسوی سے یہاں شراب کی وسیع پیمانے پر کشید کی جا رہی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ سات ارب سے زیادہ شراب کی بوتلیں یہاں تیار ہوتی ہیں
* 13- (طنطالوس ۔ Tantalusیونانی اساطیری ادب میں زیوس Zeus دیوتا کا بیٹا ہے جسے دیوتاؤ ں کے راز فاش کرنے کی پاداش میں جھاڑیوں سے گھر ے اور ٹھوڑی تک گہرے پانی میں کھڑا رہنے کی سزا دی گئی تھی۔ جب وہ جھاڑیوں سے پھل کھانے یا پانی پینے کیلئے جھکتا تو پانی نیچے اُتر جاتا تھا)
*14- (روبی کوں Rubicon شمالی اٹلی میں جو لئیس سیزر کے صوبے سیسلپیں /گال کی جنوبی سرحد پر بہنے والا دریا جسے عبور کرنے کا مطلب اعلانِ جنگ سمجھا جاتا تھا، مجازاً کوئی بھی ایسی مشکل یا بحران جس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے )
*15-( Mauviette La Lark چنڈول ایک پرندہ)
*16- نپولین بونا پارٹ Nepoleon Bonaparte 15اگست 1769ء کو اجاکیو (Ajaccio)کورسیکا میں پیدا ہوا 1786 میں سولہ سال کی عمر میں فوج میں کمیشن ملا ۔ اور ۱۱نومبر، ۱۷۹۹ء کو فرانس اور اٹلی کا بادشاہ بن گیا اور تقریباً دس سال کے عرصے میں تمام یورپ پر قابض ہو گیا۔ اُس نے اپنے تمام رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر فائز کیا ۔ 1812 میں انگلینڈ آسٹریا اور روس کی متحدہ فوجوں کے ہمراہ فرانس پر حملہ کیا اور بالآخر اپریل ۱۸۱۴ء میں نپولین کو جزیرۂ البا (L'ile alba) میں جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔ اُس نے دوبارہ اقدار حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن 18جون 1815کو واٹر لُو (Water Loo) کے مقام پر فیصلہ کن شکست کھانے کے بعد اپنی زندگی کا بقیہ چھہ سال سینٹ ہلینہ (Sainte Helena) نامی جزیرے میں انگریزی نگرانی میں گزارے اور 5مئی 1821ء کو وفات پائی اُس نے فرانس کی فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا اور فوجی قوانین بنائے جنہیں نپولین کوڈ کہتے ہیں۔ اُسکی جنگی مہمات کو ملٹری اکیڈیمیوں میں بطور نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ نپولئین نے جنگی مہمات کے علاوہ مصر کے قدیم فرعونوں کے مقابر کی کھدائی کروائی اور بیش بہا نوادر سے دُنیا کو روشناس کروایا
* 17-(کوغ سے Corsetسخت کپڑے یا بسا اوقات چمڑے سے بنا ہوا کمر بند جسے فرانسیسی خواتین کمر کو پتلا کرنے اور سینے اور کولہوں کو نمایاں کرنے چھاتیوں کے نیچے کمر کے گرد کس کر باندھ لیتی ہیں ۔ )
* 18-(Alscaseسوئٹزرلینڈ کی سرحد سے ملحقہ فرانسیسی صوبہ جہاں کی زبان میں جرمن کرختگی کی جھلک ملتی ہے) Alscaseالساس یہ فرانس کے مشرق میں چھبیسواں ریجن ہے مشرق میں جرمنی اور سوزر لینڈ کی سرحد سے متصل ہے تاریخی طور پر یہ علاقہ جرمن زبان بولنے والوں کا مسکن رہا ہے اور آج بھی یہاں جرمن زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے جرمن زبان میں اسے Alsatianکہتے ہیں کتوں کی ایک خاص نسل جن کو السیشئین کتے کہتے ہیں انکا تعلق یہیں سے ہے اور یہ لفظ اردو کی زبان میں بھی مستعمل ہے ۱۷۸۹ء میں انقلاب فرانس کے بعد اس علاقے کو ’’اوغیں‘‘ (Haut Rhin) اور ’’باغیں‘‘ (Bas Rhin)میں تقسیم کر دیا گیا ۔
*19- (Beerجو کی شراب)
* 20- (یہاں موپاساں نے لفظ Feuillette استعمال کیا ہے ۔ یہ فرانسیسی پیمانہ شراب وغیرہ کے بڑے کنستر کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں ۳۰گیلن یا 135لیٹر شراب ہوتی ہے۔ )
*21- (کشمیر Cashemireجیسے انگریزی میں Cashmereلکھا جاتا ہے، کشمیر اور تبت میں خاص قسم کی بکریوں کے پیٹ کے نچلے حصے کی اُون سے بناہوا نرم اونی کپڑا ، جس کی سطح روئیں دار ہوتی ہے۔ اس لفظ کا فرانسیسی زبان میں موجود ہونا اور اس کپڑے کا وہاں کے فیشن میں رائج ہونا کشمیر کی صناعی کی دلیل ہے۔)
*22- (Gallusپتلون کو سہارا دینے والے پلاسٹک کے فیتے جو عموماً موٹے لوگ کندھوں تک پہنچتے ہیں)
 *23- ( Le bedeauپادری کے آگے عصا پکڑ کر چلنے والا گرجا کا معمولی ملازم)
*24-(میگنیشیم سلفیٹ Magnesium Sulphateجو اس کی لکڑی کو جلنے سے محفوظ رکھتی ہے )
*25- جون آف آرک Jeanne d'Arc اور انگریزی میں Jhone of Arc لکھتے ہیں ۔ وہ ایک غیر معمولی صلاحیتوں کی دیہاتی لڑکی تھی۔ وہ 6جنوری 1412ء میں فرانس کے ایک عام سے گاؤں میں پیدا ہوئی ۔ بچپن ہی میں اُسے کچھ غیبی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ اس طرح کی ایک آواز نے اُسے کہا کہ وہ اپنے ملک فرانس کو انگریزوں کے قبضے سے چھُڑائے گی۔ وہ مختلف سفارشوں سے کنگ شارل ہفتم King Charles VII تک پہنچی اور اُسے اپنے مشن کے بارے میں بتایا۔ ایک سترہ سال کی لڑکی کے اس دعوے کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا بہر حال بڑی کوششوں کے بعد وہ بادشاہ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی 1429ء میں اُس نے ایک فوج کی قیادت سنبھالی اور اوغ لیاں شہر Orleanکو انگریزوں کے قبضے سے آزاد کرالیا۔ 29 دسمبر1429ء کو اُسے اور اسکے خاندان کو خطابات سے نوازا گیا۔ اُس نے اپنی شکست کی پیش گوئی کی اور ’ کوں پی این‘ Compiegneکے مقام سے اسے گرفتار کر لیا اور انگریزوں کی قید میں غوآں Rouenمیں اُس پر مقدمہ چلا یا گیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کے علاوہ اُس پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ غیبی آوازوں پر یقین رکھتی ہے اور مردانہ لباس پہنتی ہے۔ دورانِ حراست اس کے یقین کو متزلزل کرنے کیلئے اس پر جنسی حملہ بھی کیا گیا ۔ بالآخراُسے 30جولائی1431ء کو محض19سال کی عمر میں زندہ جلا دیا گیا۔ 7جولائی 1456ء میں انگریزوں کی فرانس سے رخصت کے بعد اس کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی گئی اور اُسے معصوم قرار دیا گیا۔ 11اپریل 1909ء میں پوپ نے اُسے متبرک ہستی قرار دیا اور پاپائے روم نے 16مئی 1920ء میں اسے ولی اللہ کا درجہ دے دیا ۔
 *26- Dieppe ۔ دی ایپ ۔سمندر کے کنارے مچھیروں کی بستی جسکا پہلا ریکارڈ 1030 تک کا ملتا ہے جرمن در اندازی میں ایک اہم محاذ جنگ رہا ہے۔
*27- (Trent et Un ) تاش کا ایک کھیل
*28- (Ecarte۔ تاش کا ایک کھیل )
*29- (کسی نومولودکو عیسائی بنانے کے لیے زعفران ملے پانی میں ڈُبکی لگائی جاتی ہے اور اُس کے سر پر تیل مل دیا جاتا ہے، اس رسم کو بپتسمہ دینا کہتے ہیں۔ عیسائی عقیدے کی رُو سے ہر پیدا ہونے والے بچے کو بپتسمہ دینا ضروری ہے اور اس کے بغیر نجات ممکن نہیں اور اُس رسم کیلئے مخصوص طرح کا گھنٹہ بجایا جاتا ہے)
*30- (Yvetot وہ قصبہ جہا ں موپاساں کی والدہ اُسے خاوند سے طلاق حاصل کرنے کے بعد لے آئی اور اُس کا بچپن وہاں گزرا)
*31- (موپاساں نے بڑی خوبصورتی سے مومی گیند کو اُس کے موٹاپے کی بنا پر Citadelle Vivante سے تشبیہ دی ہے۔ Citadelle کا ایک مطلب قلعہ یا بالا حصار ہے دوسرا مطلب ملجا و ماوٰی یا آخری پناہ گاہ کے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اُس کو Vivante یعنی زندہ یا جیتا جاگتا کہا ہے ورنہ صرف قلعہ تو بے جان ہوتا ہے اور اس سے بات نہیں بنتی تھی۔ )
 *32- Holophern & Judith ، ہولو فرن اور جیوڈیتھ کا قصہ بائبل میں مذکور ہے ۔ بخت نصرنے ایران کے بادشاہ کے ساتھ لڑائی کے لئے ہولو فرن جرنیل کو بھیجا جس نے Bethulie نامی یہودی شہر کا محاصرہ کر لیا پانی کمی کی وجہ سے شہر والے مرنے لگے تو ایک نوجوان بیوہ Judithنے اپنے شہر کو آزاد کرانے کا بیڑہ اٹھایا وہ اپنی خادماؤں اور شراب کی صراحیوں کے ساتھ ہولوفرن کے کیمپ میں داخل ہو گئی اور جنرل اس کے حسن اور ذہانت سے گھائل ہو گیا اُس نے اس کے اعزاز میں شراب کی دعوت دی جب وہ نشے میں دُھت ہو گیا تو Judithنے اس کا سر کاٹ لیا جس سے لشکر میں کھلبلی مچ گئی اور یہودی دوبارہ اپنے شہر پر قابض ہو گئے۔
 *33- Lucrecs & Sextus 509ق م تا 468ق م کا واقعہ ہے ۔ فوجی سرداروں Collatin, Sextus نے اپنی بیویوں کے حسن اوروفاداری کی تعریف کی Collatinنے کہا کہ خود چل کر دیکھ لیتے ہیں کہ میری بیوی Lucrcesوفادار ہے وہ جب اپنے محل میں پہنچے تو بادشاہ کی بہوؤیں ضیافت میں مصروف تھیں اور Lucrces اون کات رہی تھی Collatin نے شہزادے سیکسٹس کو اپنے گھر دعوت دی ،۔ کچھ روز بعد سیکسٹس مہمان کے رو پ میں کولیٹن کے گھر آیا اور اُس نے اس کی بیوی لکریشس کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی لیکن اُس نے مزاحمت کی سیکسٹس نے اسے ڈرایا دھمکایا کہ میں ایک غلام کا سر قلم کر کے یہاں پھینک دوں گا لہذا تم بدنام ہو جاؤ گی وہ اس بہانے زبردستی اس کی عزت لوٹ لی ۔ لکریشس نے قاصد روم بھیجا اپنے خاوند اور باپ کو بلایا کہ دو خاص دوستوں کے ہمراہ فوراً پہنچیں اور میرا انتقام لیں اور اس طرح سیکسٹس کو بے درد ی سے قتل کر دیا گیا ۔
 *34-قلوپطرہ۔۔۔(Cleopatre)تاریخ میں یہ نام بہت سی خواتین کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے لیکن یہاں خاص حوالہ بادشاہ ٹولمی دوازدہم اولیت (King Ptolmey XII Auletes) کی تیسری بیٹی کا ہے اُس کی پیدائش جنوری 69قبل مسیح میں ہوئی اُس کے بچپن کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں اُس کے اپنے باپ ٹولمی کے ہمراہ روم کا سفر کیا پیچھے اُسکی بڑی بہن تری فائنا (Tryphaena) نے مصر کے تخت پر قبضہ کر لیا ۔ ٹولمی نے روم کی مدد سے حکومت واپس لی اور اپنی سگی بیٹی اور قلوپطرہ کی بڑی بہن تری فائنا کو قتل کر وا دیا ۔ 58قبل مسیح میں قلو پطرہ کی دوسری بڑی بہن Bernice IV نے باپ کے تخت پر قبضہ کرلیا اور 55ق م میں اُسے بھی قتل کروا دیا گیا۔ 51ق م میں ٹولمی کی وفات ہوئی 18سالہ قلوپطرہ کو بارہ سالہ بھائی ٹولمی سیزدھم Ptolmey XIIIکے ساتھ مصر کی مشترکہ بادشاہت ملی۔ اُسکی محکومت کے ابتدائی تین سال مشکلات میں گزرے قحط ، دریائے نیل میں سیلاب اور سیاسی بے چینی نے اُسے سنبھلنے نہ دیا۔ اُس نے اپنے سگے بھائی ٹولمی XIII سے شادی کی لیکن سلطنت کے معاملات سے اُسے الگ تھلگ کر دیا اور سکوں پر صرف اپنی شبیہہ کندہ کروائی۔ اس پر امراء نے بغاوت کی اور ٹولمی سیزدہم کو دوبارہ بادشاہ بنا دیا گیا اور قلوپطرہ کو جلاوطن کر دیا گیا۔ دریں اثناء جو لیس سیزر نے مصر کو فتح کیا اور قلوپطرہ ایک منصوبے کے تحت ایرانی قالین میں چھپ گئی اور اُس کے نوکر وہ قالین جولیس سیزر کے سامنے لائے۔ جب قالین کو کھولا گیا تو اُس میں سے حسین قلوپطرہ برآمد ہوئی ۔ سیزر اس ادا سے گھائل ہو گیا اور اُسے عمروں میں تیس سال کے فرق کے باوجود اسے اپنی داشتہ بنا لیا ٹھیک 9 ماہ بعد 23جون 47ق م اُسکا سیزر سے ایک بیٹا پیدا ہو جس کا نام Ptolmey CaesarعرفCeaserion (مطلب چھوٹا سیزر) رکھا گیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مصر کی شاہی خواتین کی زچگی معتبر گواہوں کی موجودگی میں ہوتی تھی تاکہ سلطنت کے وارث کوئی اور نہ قرار پا سکے۔ اس بچے کی ڈلیوری نہیں ہو رہی تھی لہذا تاریخ میں پہلی مرتبہ قلوپطرہ کا پیٹ چاک کر کے اس بچے کو پیدا کیا گیا چونکہ اُسکا عرفیت کا نام سیزرین تھا لہذا آج بھی آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے کو سیزرین سیکشن کہتے ہیں۔ قلو پطرہ کی خواہش تھی کہ جولیس سیزر اس بچے کو اپنا وارث بنائے لیکن اُس نے اپنے پوتے یا نواسے Octavianاوکٹاوین کو ولی عہد مقرر کر دیا ۔ 42 ق م میں مارک انتونی سیزر کی جگہ روم کا بادشاہ بنا اور اُس نے قلوپطرہ کو مملکت سے وفاداری کا ثبوت پیش کرنے کیلئے طلب کیا لیکن خود اُس کی زلفوں کا اسیر ہو گیا اور اُس سے جڑواں بیٹے پیدا ہوئے لیکن چار سال بعد 37ق م میں اُس نے قلوپطرہ سے باقاعدہ شادی کر لی پھر ان دونوں نے طویل عرصے تک حکومت کی اور جب اوکٹاوین نے مصر کو فتح کیا تو مارک انتونی نے خود کشی کر لی اور قلوپطرہ نے بھی اپنے آپ کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر ہلاک کر لیا۔ قلوپطرہ اور ادب قلوپطرہ ادیبوں شاعروں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنی رہی ۔ 1609ء میں ولیئم شیکسپئیر ، 1678 میں جان ڈرائیڈن 1901 ء میں جارج برنارڈ شا نے اُس پر شہرہ آفاق ڈرآمے لکھے قلوپطرہ پر پہلی فلم 1908 ء میں بنی بعد ازاں 1917ء اور 1934ء میں دو اور فلمیں بنی۔ 1963 ء میں ایلزبیتھ ٹیلر نے قلوپطرہ کالافانی کردار ادا کیا اور اس فلم کو متعدد اکیڈمی ایوارڈ ملے۔ 1990ء میں پنجابی زبان میں بھی ’’ مس قلوپطرہ‘‘ کے نام سے فلم بنی بابرہ شریف اس کی ہیروئین تھی) 2005ء میں ایک کارٹون فلم سیریز سکوبی ڈو(Scooby Doo) میں قلوپطرہ کو فلمایا گیا۔ آج مارکیٹ میں کئی ویڈیو گیم قلوپطرہ کے نام سے ملتی ہیں فرنچ مصوروں میں سرتھامس براؤن اور ژیان آندرے رکسیں(Jean Ardre-Rixen) وغیرہ نے اُسکی لافانی تصویریں بنائیں جو تو لُوز(Toulouse) کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔
 *35- ہنی بال247 ق م Santa maria Capua Vetere، 212ق م کا واقعہ ہے زیادہ تفصیلات نہیں حاصل ہو سکیں
* 36- (فرانس میں شادی شدہ عورت کو مادام کہتے ہیں اور کنواری،طلاق یافتہ کو مادموازیل Mademoiselle کہتے ہیں )
 *37- Le Havre نار منڈی بالا کے اس شہر کی بنیاد 1517ء میں رکھی گئی اور فرانسس اول کے نام پر اس کا نام Francispolisیعنی فرانسس کا شہر رکھا گیا ۔ بعد ازاں اس کا نام Le havre de grace رکھ دیا یگا اور موجودہ نام صرف Le havreہے جس کا لفظی مطلب بندرگاہ ہے۔
 * 38- شمپئین Champagneصحیح تلفظ ’’ شاں پائن ‘‘ فرانس کے علاقے Champagne Regionکی نسبت سے اس شاں پائن کہتے ہیں۔ صاف شفاف انگور کی شراب جس میں تخمیر سے بلبلے بنتے ہیں ۔ تقریبا 1700ء میں موجودہ شکل میں شمپئین کو مارکیٹ کیا گیا اسے بادشاہ اور اعلی طبقے استعمال کرتے تھے اور لہذا امارت کا مظہر بن گئی 1866ء میں شاں پائن بنانے والے ادارے موئے (Moet) میں جارج لی بورن (George Leybourne) جو اپنے وقت کا مشہور سٹار تھا سے معائدہ کیا کہ وہ صرف شاں پائن پیئے گا ۔ 1800ء تک یہ نسبتا میٹھی تھی یعنی ایک لیٹر میں 300گرام چینی تھی لیکن بعد ازاں میٹھے کی مقدار کم کر دی گئی۔ شاں پائن کی کشید کیلئے خاص قوانین بنائے گئے جن میں چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں 1۔ صرف خاص قسم کے انگور مثلاً شاغ دونے ، ( Chardonnay)پینونوآغ(Pinot Noire)یا پینو میونیئے (Pinot Meunier)سے بنائی جا سکتی ہے، صرف ایک قسم بھی استعمال ہو سکتی ہے یا آپس میں کسی تناسب سے بھی کام لیا جا سکتا ہے ایک خاص درجے سے زیادہ انگورروں کو نہیں نچوڑا جا سکا ۔ قیمتوں کو بلند سطح پر رکھنے کیلئے فالتو شراب کو مارکیٹ کرنے پر پابندی لگ سکتی ہے۔ 100 ادارے شاں پائن بناتے ہیں اور 15ہزار باغات میں یہ انگور اُگائے جاتے ہیں سالانہ تقریباً 3 ارب بوتلیں تیار کی جاتی ہیں جس کی قبمت اندازاً 4.3 بلین یورو بنتی ہے۔ 58%پیداوار فرانس کے اندر استعمال ہوتی ہے اور 42% کو بیرونی دنیا میں برآمد کیا جاتا ہے ۔ UK ، امریکہ اور جرمنی بڑے خریدار ہیں۔ شاں پائن بنانے والے اداروں کی مختلف درجہ بندی ہے مثلاً جس بوتل پر NM لکھا ہوگا اس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنی انگور دوسرے لوگوں سے خریدتی ہے اور شاں پائن بناتی ہے RMکا مطلب ہے کہ خود اگاتے ہیں اور خود شراب بناتے ہیں NDصرف تقسیم کار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ شاں پائن بادشاہوں اور امراء کا ہمیشہ سے پسندیدہ مشروب رہی ہے لیکن انیسویں صدی میں اسے خواتین میں بھی مقبول عام بنانے کی مہم چلائی گئی (Comte de Dudley) اور نواب تولے ماش (Baron Tolle mache) کی بیگمات کے پسندیدہ مشروب کے طور پر اُس کی تشہیر کی گئی اور مشہور گلوکارہ آدلینہ پتی (Adlelina Patti)کو اس تشہری مہم کیلئے استعمال کیا گیا ۔ شاں پائن کے لیبل پر خصوصی توجہ دی گئی اور رومانوی تصویریں شائع کی گئیں اور بالخصوص عورتوں کیلئے اہم واقعات جیسے شادی اور بچے کو بپتسمہ دینے کی رسم کو لیبل میں اُجاگر کیا گیا۔ کچھ لیبلوں میں سیاسی واقعات مثلاً انقلاب فرانس کی مقبولیت کو کیش کرایا گیا۔ جنگ عظیم اول کے دوران فوجیوں کی تصاویر کو لیبل کی زینت بنایا گی اور حب الوطنی کے جذبے کو بھی تجارتی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا۔ عیسائی دنیا میں یہودیوں کے خلاف نفرت پر مبنی لیبل میں شاں پائن کی مقبولیت کا سبب بنے مختلف سائز کی بوتلوں میں دستیاب ہے بڑی بوتل میگنم Magnumیا Ballthazarڈیڑھ لیٹر اور چھوٹی 750ml۔ یا اس سے بڑی Jeroboamہے جس میں تین لیٹر شراب آتی ہے کبھی کبھی غیر معمولی سائز مثلاً Primat 27 لیٹر اور Melchizedek 30لیٹر میں بھی بنائی گئی ۔ برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل کیلئے خاص چھوٹے سائز کی بوتل بنائی گئی ۔ شاں پائن کے آداب : اس کا کارک بھی خاص طرح کا ہوتا ہے اور کھولنے کا طریقہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ میں کارک پکڑیں اور دوسرے ہاتھ میں بوتل اور بوتل کو گھما کر کھولیں نہ کہ کارک کو گھما کر کھولا جائے۔ خاص طرح کے لمبوترے گلاس جنہیں شاں پائن فلوٹ (Champagne Flute)کہتے ہیں ان میں پی جاتی ہے۔ گلاس کو کبھی 2/3 سے زیادہ نہیں بھرا جاتا جبکہ عام شراب صرف 1/3rd یعنی ایک تہائی تک گلاس بھرا جاتا ہے اسے ہمیشہ سات اورنو سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت کے درمیان پیش کیا جاتا ہے مختلف سپورٹس مثلا Grand Prix گغاں پری جو کاروں کی عالمی ریس کا مقابلہ ہے اس میں جیتنے والا شاں پائن کی جھاگ اڑاتا ہے۔ خصوصی موقعوں پر شاں پائن کی بوتل کی گردن تلوار سے بھی کاٹی جاتی ہے اور طریقے کو ’’ساب غاژ‘‘ Sabrageکہتے ہیں۔ کچھ لوگ تازہ بنی شاں پائن پینا پسند کرتے ہیں اورکچھ لوگ پُرانی کا ذائقہ پسند کرتے ہیں۔ *39- ( Quadrille) ایک طرح کا چوکور ناچ جس میں چار جوڑے حصہ لیتے ہیں اور ایک مربع کی صورت میں ناچتے ہیں اور ہر جوڑا مربع کے ایک کونے پر رہتا ہے )
 *40- (Beziqueایک کھیل جو تاش کے دو گڈیوں سے کھیلا جاتا ہے جس میں دُکی سے چھکے تک تمام پتے نکال لیے جاتے ہیں اور حُکم کی بیگم اور اینٹ کے غلام کا ملاپ ہوتا ہے)
۔ *41-(Marsillease) فرانس کا قومی ترانہ

No comments:

Post a Comment